- فتوی نمبر: 2-10
- تاریخ: 12 نومبر 2007
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
1979ء سے1999ء تک میں لیبیا میں کام کرتارہاہوں اور مالک کی کرم نوازی رہی ہے اور میرا تعلق ایک سفید پوش اورعزت دار خاندان سے ہے۔ میری بیوی اکثر بیماررہی تھی معدے کا السر اورزنانہ بیماریاں تھی ۔پھر1992ء میں پہلا زنانہ بڑاآپریشن کروانا پڑا۔ اس کے بعد پتے میں پتھریوں کا آپریشن جوکہ دوبارہ میجرآپریشن تھا کرانا پڑا۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے مزید 13 آپریشن کرانے یا کروانے پڑے۔
1999ء میں میرے بڑے بیٹے کو ہیپاٹائٹس بی ہوگیا اور اس کے علاج پر سارا زیور بیچ کر لگا دیا مگر بچہ ابھی تک اس موذی مرض کا شکار ہے ۔جبکہ 1999ء میں میری نوکری بھی ختم ہوگئی۔ تین سال بے روزگاری میں گزارے ۔پھر نشتر ٹاؤن میں بیلدار بھرتی ہوگیا۔یہاں آج کل مجھے اتوار اور ہر طرح کی چھٹیاں کاٹ کر کام والے دن کے 175 روپے ملتے ہیں۔ مہینے کا تقریباً چار ہزار روپے ملتے ہیں ۔ اور مرا گھر سے کام پر آنے جانے کا کرایہ پچاس روپے روزانہ ہے۔
بیوی کے لگاتار بیمار رہنے کی وجہ سے گھر کا نظام چلانے میں دشواری تھی لہذا2004ء میں بیٹے کی شادی 20سال کی عمر میں مجبوراً کرنا پڑی اور وہ بھی ساراشادی کا خرچہ قرضہ لے کرکیا۔علاج اور گھر کا چولہا چلانے کے لیے بھی قرض لیتارہا اس طرح میرے اوپر چھ لاکھ روپے قرضہ ہوگیا ہے ۔ جس میں سے ساڑھے پانچ لاکھ صرف ایک آدمی کا ہے۔
اب میری ٹوٹل آمدنی میری تنخواہ اور دو بیٹوں کی تنخواہ جوبھی ابھی کچھ دیر پہلے کام کرنے لگے ہیں ملا کر ٹوٹل /9000 روپے بنتے ہیں اور بڑااخراجات کھاتے ، لباس اور علاج کے علاوہ مندرجہ ذیل ہیں۔
بجلی،پانی ،گیس کے بل (3000)،بچوں کی تعلیم(1800)،واشنگ مشین کی ماہانہ قسط(1000)،شیرخوار بچے کا دودھ (1200)۔
جس آدمی کے ساڑھے پانچ لاکھ دینے ہیں وہ گھر بنا رہاہے اور کہہ رہا ہے کم ازکم مجھے دولاکھ دیں۔ اب میرا ایک بیٹا PAF میں ملازم ہوگیا ہے ۔ اسے بینک سے تقریباً بیس تنخواہیں ایڈوانس مل سکتی ہیں جو قسطوں میں مارک اپ کےساتھ کٹوتی ہوتی ہیں۔ اب یا تو میں اپنا گھر بیچ کر قرضہ ادا کرسکتاہوں اور یا بچے کے ذریعے بینک سے بارہ تا اگر بیس مل جائیں تو تنخواہیں پیشگی لے کے قسطوں میں کٹوتی کراکے تقریباً ایک لاکھ واپس کرکے ساڑھے چار لاکھ کے لئے مزید ٹائم لے لوں۔ اگ ان حالات میں مجھے اللہ تعالیٰ اجازت دیتے ہیں تو میں بینک سے قرضہ لے لوں۔ کیونکہ گھر بیچ کر کم ازکم تین ہزار کرایے پر گھر لینا پڑے گا۔ اور دوبارہ گھر بنا نا مشکل ہوجائے گا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اگر میزان بینک سے رقم مل سکے اوروہ اس کی کوئی جائز غیرسودی صورت بناسکیں تو اس کو اختیار کریں۔ اور اگر وہاں سے نہ ملتا ہوتو مجبوری میں کسی دوسرے بینک سے لے سکتے ہیں۔ ساتھ میں توبہ بھی کرتے رہیں۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved