• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بينك سے قسطوں پر  خریدی گاڑى کو آگے فروخت کرنا

استفتاء

زید نے بینك سے قسطوں پر تیس لاکھ  کی گاڑی خریدی۔ اب وہ اس گاڑی کو کسی وجہ سے موجودہ مارکیٹ قیمت پر مثلاً تئیس لاکھ میں آگے عمرو کو بیچ رہا ہے۔ بینک کی بقیہ اقساط عمرو ادا کرے گا۔ کیا اس طرح عمرو کے لئے گاڑی خریدنا جائز ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں بینک سے خریدی ہوئی گاڑی  خریدناجائز نہیں۔توجیہ: ہماری تحقیق میں بینک (اسلامی یا سودی)سے قسطوں پر گاڑی لینا جائز نہیں ہے  اور جس چیز کی بیع اول جائز نہ ہو اس کا خریدنا بھی جائز نہیں۔ نیز اسلامی بینک چونکہ ابتداءاً  خرید و فروخت کا معاملہ کرتا ہی نہیں بلکہ ان کا طریقہ کار لیزنگ کا ہے اس لئے وہ گاڑی قسطیں مکمل ہونے سے پہلے خریدار کی ملکیت میں آئی ہی نہیں ہوتی لہذا اس صورت میں غیر مملوک کی بیع لازم آتی ہے جو کہ ناجائز ہے۔امداد الاحکام، کتاب البیوع، فصل فی البیع الفاسد و الباطل (طبع:مکتبہ دار العلوم کراچی،  جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 420)ميں ہے:"اگر معین طور پر یہ معلوم ہو جائے کہ اس بکری کی بیع بطریق فاسد ہوئی ہے تو اس کا گوشت خریدنا جائز نہیں اور اگر عام رواج کی تو خبر ہے مگر کسی خاص کی بابت معلوم نہیں کہ اس کی بیع کس طرح ہوئی ہے اس صورت میں احتیاط کرنا اچھا ہے ،مگر خرید لے گا تو اس کا کھانا حلال ہو گا ۔قال فى الاشباه ناقلا عن القنية غلب على ظنه ان اكثر بياعات اهل السوق لا تخلو عن الفساد فان كان الغالب هو الحرام تنزه عن شرائه ولكن مع هذا لو اشتراه يطيب له اه قال الحموى ووجهه أن كون الغالب في السوق الحرام لا يستلزم كون المشترى حراما ؛ لجواز كونه من الحلال المغلوب ، والأصل الحل اه (ص:92) قلت: وهذ الامكان يرتفع اذا علم كون المشتري بعينه من الحرام حرره الاحقر ظفر احمد عفا عنه بامر سيدي حكيم الامة”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved