• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

برائت عن العیوب کی صورت میں کتمان عیب کا گناہ ہو گا؟

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام وعلماءشرع اس مسئلہ کےبارے میں کہ بولی کے ذریعے جانور بیچنے کی مختلف صورتیں ہیں :

1۔بولی کےذریعے جانور بیچتے وقت جانور میں موجود ظاہری بیماریاں وعیوب اکثر بتادی جاتی ہیں ۔

2۔اسی طرح کبھی کبھار یہ کہہ کرکہ یہ جانور آپ کے سامنے کھڑا ہے آپ اس کو اچھی طرح دیکھ لیں کہ یہ سونا ہے یا مٹی آپ کا ہے بعد میں ہم کسی قسم کے عیب یا نقصان کےذمہ دار  نہیں ہوں گے ۔

3۔بسااوقات جانور میں ایسی بیماری وعیب ہوتا ہے جو بظاہر دیکھنے میں آہی نہیں سکتا اس کا صرف اور صرف ڈاکٹر صاحب کو پتہ لگ سکتا ہے ۔مثلا مادہ جانور میں ایک بیماری ہے جس کو Bruce Elaکہا جاتا ہے جس میں جانور حاملہ ہونے کےبعد بچہ گرادیتا ہے مکمل نہیں کرپاتا ۔(۱)ایسی صورت (جس میں خریدار کو اپنی استطاعت کےبقدر چھان بین کرکے بھی جانور کی اس باطنی بیماری کا پتا نہیں چلتا )میں اگر براءت عن العیوب کرکے بیچے تو کیا اس طرح بیچنا شرعا جائز ہے؟(۲)کیا اس طرح بیچنا کتمان عیب شمار ہوگا ؟(۳)اور کیا اس طرح بیچنے والے لوگ گناہگارہوں گے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔براءت عن العیوب کرکے جانور بیچنا جائز ہے خواہ بائع کو عیوب کاعلم ہویا نہ ہو ۔

2۔3۔مذکورہ صورت میں کتمان عیب کی نہیں،خواہ براءت عن العیوب کرے یا نہ کرے اوراس صورت میں بیچنے والاگناہ گاربھی نہ ہو گا ،تاہم خریدار کو خیارعیب حاصل ہوگا کیونکہ کتمان عیب اوراس پر گناہ اس صورت میں ہے جب بائع کو

عیب کاعلم ہو اوروہ نہ خریدار کو عیب کابتائے اور نہ براءۃ اعن العیب کرکے بیچے۔

المستدرك على الصحيحين للحاكم مع تعليقات الذهبي في التلخيص (2/ 257)

عن عقبة بن عامر الجهني قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : المسلم أخو المسلم و لا يحل لمسلم إن باع من أخيه بيعا فيه عيب أن لا يبينه له هذا حديث صحيح على شرط الشيخين و لم يخرجاه تعليق الذهبي قي التلخيص : على شرط البخاري ومسلم

صحيح مسلم – عبد الباقي (1/ 99)

عن أبي هريرة  أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على صبرة طعام فأدخل يده فيها فنالت أصابعه بللا فقال ما هذا يا صاحب الطعام قال أصابته السماء يا رسول الله قال أفلا جعلته فوق الطعام كي يراه الناس من غش فليس مني

اعلاء السنن 101/14

قال محمد : بلغناعن زید بن ثابت انه قال "من باع غلاما بالبراءة فهو بریء من کل عیب” وکذلک باع عبد الله بن عمر بالبراءة ورآها جائزة فبقول زید بن ثابت و عبد الله بن عمر ناخذ (ص335) قلت سند صحیح موصول

حاشية ابن عابدين (5/ 47)

لا يحل كتمان العيب في مبيع أو ثمن لان الغش حرام

قوله ( لأن الغش حرام ) ذكر في البحر أول الباب بعد ذلك عن البزازية عن الفتاوى إذا باع سلعة معيبة عليه البيان وإن لم يبين قال بعض مشايخنا يفسق وترد شهادته قال الصدر لا نأخذ به ا هـ  قال في النهر أي لا نأخذ بكونه يفسق بمجرد هذا لأنه صغيرة ا هـ قلت وفيه نظر لأن الغش من أكل أموال الناس بالباطل فكيف يكون صغيرة بل الظاهر في تعليل كلام الصدر أن فعل ذلك مرة بلا إعلان لا يصير به مردود الشهادة وإن كان كبيرة كما في شرب المسكر

حاشية ابن عابدين (5/ 42)

وصح البيع بشرط البراءة من كل عيب وإن لم يسم

قوله ( وصح البيع بشرط البراءة من كل عيب ) بأن قال بعتك هذا العبد على أني بريء من كل عيب

امداد الاحکا م (3/417)میں ہے:

کپڑے میں اگر عیب ہوتو خریدنے والے کو اس عیب کا بتلانا ضروری ہے یا نہیں ؟

سوال:میری دوکان میں ایسے کپڑے ہیں جن میں کوئی نہ کوئی عیب ہوتا ہے کسی میں کوئی داغ ہوتا ہے کوئی کسی مقام پر سے کٹا ہوتا ہے اسی لیے یہ ٹکڑے بازار کے تھانوں سے کم نرخ پر بکتے ہیں جو لوگ کپڑے میں تفاوت چاہتے ہیں وہ میرے یہاں خریدنے آتے ہیں ان کو کپڑوں کا عیب بتلانا ضروری ہے یا نہیں ؟

جواب:بہتر یہ ہے کہ عیب صاف صاف بیان کردیا جائے اگر اس کی ہمت نہ ہو تو کم از کم یوں کہہ دے کہ اچھی طرح دیکھ کرلو میں عیب کا ذمہ دار نہیں جیسا مال ہے سامنے ہے اس کےبعد بھی جو راضی ہوکر خریدے گا تو آپ پر شرعا کتمان عیب کا گناہ نہیں ہوگا ۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved