• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بڑے بھائی نے زندگی میں اپنا حق چھوٹے بھائیوں کو معاف کردیا تھا کیا بڑے بھائی کی بیوہ اس کا مطالبہ کرسکتی ہے؟

استفتاء

مجھے ایک مسئلہ پر آپ کی شرعی راہنمائی درکار ہے:

مسئلہ یہ  ہے کہ میرے والد صاحب کا ایک مکان اور ایک پلاٹ تھا۔ اپنے حصوں کے بقدر مکان ہم دو چھوٹے بھائیوں اور والدہ نے لے لیا اور پلاٹ بڑے بھائی اور بہنوں نے لے لیا۔ بڑے بھائی کا جتنا حصہ بنتا تھا اس میں سے 623000 روپے کم پڑ رہے تھے چالیس چالیس ہزار پانچ بہنوں  نے دیدئیے تھے  اور کچھ پیسے بڑے بھائی نے پہلے سے دینے تھے وہ مائنس کرکے بقیہ رقم مبلغ 384,367 (تین لاکھ چوراسی ہزار تین سو سرسٹھ) روپے بڑے بھائی نے  ہم دو چھوٹے بھائیوں کو سات گواہوں کی موجودگی میں چھوڑ دیئے تھے کہ میں ڈیڑھ سے دو سال ہم دونوں بھائیوں کے مکان میں رہوں گا۔ اس پر میں نے بھائی کو کہا کہ میں اپنی گاڑی بیچ کر  پیسے ادا کردیتا ہوں اور چھوٹے بھائی نے کہا کہ میں زیور بیچ کر پیسے ادا کردیتا ہوں لیکن بھائی نے کہا کہ مجھے پیسے نہیں چاہئیں، میں نے یہ پیسے چھوڑ دیئے ہیں۔ بھائی کا انتقال مؤرخہ 26 جون 2020 ء میں ہوگیا تھا اور ان کی بیوہ اور دو بیٹے ابھی بھی ہمارے پاس رہ رہے ہیں، دو بیٹیوں کی شادی ہوچکی ہے اب ان کی بیوہ یہ تقاضا کرتی ہیں کہ میں اور میرے بچے اپنا حق نہیں چھوڑیں گے یہ ہمارا حق ہے یہ ہمیں دیا جائے۔ برائے مہربانی قرآن وحدیث کی روشنی میں راہنمائی فرمائیں۔

مرحوم بھائی کی بیوہ کا بیان:

’’مسئلہ یہ ہے کہ میرے سسر کا ایک مکان  اور ایک پلاٹ تھا جس میں وراثت کی تقسیم پانچ بہنوں، تین بھائیوں اور ساس میں ہوئی۔ مکان دونوں دیوروں کے نام کردیا گیا۔ مکان اور پلاٹ کے حصے پلاٹ میں سے ہی دیئے گئے۔ وراثت کے حصے میں میرے شوہر کے 6,23,003/ روپے کم پڑ رہے تھے جو کہ میرے دونوں دیوروں نے ادا کرنے تھے، میرے شوہر کے مطالبے پر بڑے دیور نے گاڑی بیچ کر ادا کرنے کا کہا اور چھوٹے دیور نے اپنی بیوی کے زیور  بیچ کر ادا کرنے کا کہا جس پر میرے شوہر نے جذباتی ہوکر وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے کہا کہ یہ پیسے نہیں چاہئیں لیکن میرے شوہر بقیہ پیسے بھی لینا چاہتے تھے۔

میرے شوہر کا انتقال 26 جون 2020 کو ہوا اور میرے شوہر کا ایک  عدد فلیٹ ہے جس کا بقیہ قسط 12,30,000 ادا کرنے ہیں جس کے بعد میری اور بچوں کی اپنی چھت ہوجائے گی اور اس کے علاوہ میرے شوہر پر بہت سے لوگوں کا قرضہ ہے جو ہم آہستہ آہستہ ادا کررہے ہیں۔ ان سب باتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے میں اپنا اور بچوں کا حق لینا چاہتی ہوں جس کی رقم  6,23,003 روپے ہے لیکن میرے دونوں دیوروں کا کہنا ہے کہ اس بقیہ رقم پر آپ کا اور آپ کے بچوں کا کوئی حق نہیں ہے حالانکہ یہ رقم میرے شوہر کی وراثت کی ہے تمام دستاویزات جس میں میرے شوہر کے ہاتھ سے لکھی ہوئی تفصیلات موجود ہیں منسلک کررہی ہوں۔ ڈیڑھ دو سال مکان میں رہنے سے متعلق کوئی بات نہیں ہوئی  تھی۔ برائے مہربانی شریعت کے مطابق رہنمائی فرمائیں۔‘‘

نوٹ: دارالافتاء کے نمبر سے سائل کی والدہ سے رابطہ کیا گیا تو سائل کی والدہ نے مندرجہ ذیل بیان دیا ہے:

’’ہمارے سامنے میرے بڑے بیٹے نے اپنے چھوٹے دونوں  بھائیوں کو کہا تھا کہ میں نے پیسے نہیں لینے، میں نے معاف کیے، جبکہ چھوٹے دونوں بھائیوں نے کہا تھا کہ ہم دینے کے لیے تیار ہیں لیکن پھر بھی بڑے بیٹے نے معاف کردئیے‘‘

انور صاحب جو عبد المؤمن مرحوم کے قریبی دوست تھے اور مذکورہ وراثت کی تقسیم کے وقت سب معاملات میں موجود تھے، انہوں نے فون کے ذریعے دار الافتاء میں یہ بیان دیا:

’’میں سب معاملات میں موجود تھا بلکہ وراثت کی ساری تقسیم میں نے بنائی تھی پھر اس تقسیم کی مفتی صاحب سے تصدیق کروا لی تھی، اور چھوٹے دونوں بھائیوں کو مکان دینے کا مشورہ بھی میں نے ہی دیا تھا تاکہ یہ مکان بیچنے کی نوبت نہ ہی آئے، اس تقسیم میں چھوٹے دونوں بھائیوں پر پانچ، چھ لاکھ آرہے تھے تو اس وقت بڑے بھائی نے کہا تھا کہ میں یہ برداشت کرلوں گا، بڑے بھائی نے دونوں چھوٹے بھائیوں کو ریلیف دیا تھا، اور یہ بھی بات ہوئی تھی کہ جب تک عبد المومن (بڑے بھائی) کا فلیٹ جو زیر تعمیر تھا تیار نہیں ہوجاتا اس وقت تک بڑے بھائی اسی مکان میں رہیں گے۔ جب تک میں ان معاملات میں تھا تو اس وقت تک تو ایسا ہی تھا، میرے بعد کچھ اور ان کی بات ہوئی ہو تو وہ میرے علم میں نہیں۔‘‘

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں بڑے بھائی نے چھوٹے بھائیوں کو چونکہ اپنا حق معاف کردیا تھا اس لیے اب وہ رقم بڑے بھائی کی وراثت شمار نہ ہو گی اور ان کی بیوہ کا اس رقم کا مطالبہ کرنا بھی درست نہیں۔

در مختار مع رد المحتار (8/602) میں ہے:

(‌هبة ‌الدين ممن عليه الدين وإبراؤه عنه يتم من غير قبول) إذ لم يوجب انفساخ عقد صرف أو سلم لكن يرتد بالرد في المجلس وغيره لما فيه من معنى الإسقاط، وقيل: يتقيد بالمجلس، كذا في العناية لكن في الصيرفية لو لم يقبل، ولم يرد حتى افترقا ثم بعد أيام رد لا يرتد في الصحيح لكن في المجتبى: الأصح أن الهبة تمليك، والإبراء إسقاط

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved