• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

باریک کپڑے کی تجارت کا حکم

استفتاء

مفتی  صاحب ہماری کپڑے کی دکان ہے جس میں ہم ہر طرح کا کپڑابیچتے ہیں تو کیا ہم باریک کپڑے کی تجارت کرسکتے ہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر کسی گاہک کے بارے میں یقین یا ظن غالب ہو کہ وہ اس کا ناجائز استعمال کرے گا تو ا س کو  کپڑا بیچنا ناجائز ہے ورنہ جائز ہے۔

توجیہ: چونکہ ہمارے عرف میں باریک کپڑا خریدنے والے بہت  سے  لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس کے نیچے دوسرا کپڑا لگا کر یا پہن کر استعمال کرتے ہیں یعنی جسم ظاہرنہیں ہوتا اس لیے اس کی بیع جائز ہے اس کی مثال ایسے ہی ہے جیساکہ اسلحہ کی بیع عام حالات میں جائز ہے کیونکہ اس کا استعمال دونوں طرح  کا ہے لیکن اگر معلوم ہوکہ خریداراس کو ناجائز استعمال کرے گا مثلا اہل فتنہ میں سے ہو  تو  ایسے شخص کے ہاتھ اسلحہ کی بیع مکروہ ہے یعنی ناجائز ہے۔

الدر المختار مع ردالمحتار (4/268) میں ہے:

(ويكره) تحريما (‌بيع ‌السلاح من أهل الفتنة إن علم) لانه إعانة على المعصية

قوله: تحريما) بحث لصاحب البحر حيث قال: وظاهر كلامهم أن الكراهة تحريمية لتعليلهم بالإعانة على المعصية ط (قوله: من أهل الفتنة) شمل البغاة وقطاع الطريق واللصوص بحر (قوله: إن علم) أي إن علم البائع أن المشتري منهم (قوله: لأنه إعانة على المعصية) ؛ لأنه يقاتل بعينه

شامی (6/ 392) میں ہے:

«وبيع المكعب المفضض للرجل ‌إن ‌ليلبسه يكره، لأنه إعانة على لبس الحرام»

البحر الرائق (8/230) میں ہے:

«وبيع المكعب المفضض للرجال إذا علم أنه يشتريه ‌ليلبسه يكره؛ لأنه إعانة له على لبس الحرام»

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved