استفتاء
کیا بریلوی حضرات کی مسجدوں میں چندے کے لیے پیسے دے سکتے ہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
بریلوی حضرات چونکہ اپنی مساجد میں متعدد کام ایسے کرتے ہیں جو ہماری تحقیق میں بدعت کے زمرے میں آتے ہیں لہذا ہماری رائے میں ان کی مساجد میں چندہ دینا درست نہیں کیونکہ اس چندے سے کسی نہ کسی درجے میں بدعت کے کاموں میں ان کی اعانت ہوگی اور بدعت یا ناجائز کاموں میں معمولی تعاون کی بھی اجازت نہیں ۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وتعاونوا علی البر و التقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان
ترجمہ:اور آپس میں نیک کام پر اور پرہیزگاری پر مدد کرو اور گناہ پر اور ظلم پر مدد نہ کرو۔
تنوير الابصار مع درمختار (3/356)میں ہے:
(ولايجوز دفعها لأهل البدع )كالكرامية لأنهم مشبهة في ذات الله،و كذا المشبهة فى الصفات
حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار (1/430)میں ہے:
(قوله ولا يجوز دفعها لأهل البدع)ظاهره ولو غير مكفرة وفيه أنهم مومنون عصاة فمقتضاه الكراهة
فتاوی محمودیہ(22/334)میں ہے:
سوال: بمبئی میں رواج ہورہا ہے کہ بریلوی حضرات اپنی رقم زکوۃ کو دیوبندی مدرسہ میں دینا ناجائز اور حرام سمجھتے ہیں اور ہمارے سفراء کو زکوۃ کی رقم نہیں دیتےہیں ،تو کیا ان کے سفراء کو زکوۃ کی رقم دیں اور زکوۃ ادا ہوجائے گی یاہم بھی ان کے مدرسہ والوں کو زکوۃ کی رقم نہ دیں؟
الجواب: زکوۃ متقی دین دار کو دی جائے،جیساکہ کتب فقہ میں ہے،جو شخص جماعت یا مدرسہ حق اور اہل حق کی مخالفت،تکفیر کرے،اس کے لیے کوشش میں مصروف رہے ،اس کو زکوۃ نہ دی جائے،اس کو زکوۃ دینا مخالفت حق کی اعانت کرنا ہے۔و تعاونوا على البر و التقوى و لا تعاونوا على الاثم و العدوان.فقط والله تعالى أعلم
فتاوی مفتی محمود(3/346)میں ہے:
اہل بدعت لوگوں کو یا ان کے مدارس میں عشر و زکوۃ دینا جائز نہیں بلکہ اپنے فقراء خویش و اقارب میں یا غیر خویش و اقارب میں بشرطیکہ مستحق ہوں صرف فرمائیں،اس میں زیادہ اجر ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved