- فتوی نمبر: 27-276
- تاریخ: 23 ستمبر 2022
- عنوانات: عبادات > نماز > جمعہ کی نماز کا بیان
استفتاء
ہماری بستی ٹبہ نین وال ہے جس کی آبادی 953 افراد پر مشتمل ہے اس بستی میں ایک ہی مسلک دیوبند ہے اس بستی کے قریب قریب چھوٹی چھوٹی بستیاں ہیں جن کی آبادی کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
1۔چاہ فقیر اں والا فاصلہ 4ایکڑ آبادی 105
2۔چاہ ٹبی والا فاصلہ 2 ایکڑ آبادی 204
3 ۔چاہ کھڑکا والا فاصلہ 10 ایکڑ آبادی 38
4۔چاہ حاجی باگڑا فاصلہ 1 کلومیٹر آبادی 90
5 ۔چاہ غازی آباد فاصلہ 13 ایکڑ آبادی 246
6۔باغ والا فاصلہ 1کلومیٹر آبادی 76
7۔نتھو والا فاصلہ 1 کلو میٹر آبادی 58
8۔چاہ پٹھان والا فاصلہ تقریباً 1 کلومیٹر سے زائد آبادی58
9۔حاجی روز دار کی بستی فاصلہ تقریباً 1.75 کلومیٹر آبادی70
ان ساری بستیوں کی کل آبادی 1977 ہے۔ ان بستیوں کے درمیانی فاصلے میں زرخیز زمین ہے اور ان بستیوں کی مساجد بھی علیحدہ علیحدہ ہیں ۔ ہماری بستی” ٹبہ نین وال ” میں 7 پرچون کی دوکانیں ہیں ، 3 درزی کی دوکانیں ہیں ، 2 عطائی ڈاکٹر ہیں ، 1 موٹر سائیکل مکینک کی دوکان ہے ، 1 جوتے اور برائلر مرغی کی دوکان ہے، 1چکی کی دوکان ہے ، اور 1 دوکان سموسے اور پکوڑے کی ہے ۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں ہماری اس بستی میں جمعہ جا ئز ہے یا نہیں؟
نوٹ: مذکورہ بالا بستیوں میں سے پہلی تین بستیوں والے ہماری بستی سے سودا سلف لینے آتے ہیں ۔
تنقیح : آپس کے اختلاف کی وجہ سے ایک ہی مسجد میں آدھے لوگ جمعہ پڑھ رہے ہیں اور آدھے ظہر کی نماز پڑھ رہے ہیں ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
فقہ حنفی کی رو سے مذکورہ آبادی میں جمعہ درست نہیں البتہ امام شافعی ؒ کے نزدیک درست ہے اس لیے جو لوگ مذکورہ آبادی میں جمعہ پڑھ رہے ہیں ان کو چاہیے کہ وہ بھی جمعہ کے بجائے ظہر پڑھیں ۔ تاہم اگر جمعہ پڑھنے والے جمعہ چھوڑنے پر تیار نہ ہوں تو بجائے لڑائی جھگڑا کرنے کے اور جمعہ اور ظہر کی الگ الگ جماعت کروانے کے ظہر پڑھنے والوں کو چاہیے کہ وہ جمعہ کے دن ظہر کی نماز انفرادی پڑھیں یا جمعہ پڑھنے والوں کے ساتھ جمعہ کی نماز میں شریک ہو جائیں۔
فتاویٰ شامی (3/8) میں ہے:
لا تجوز(أي الجمعة:از ناقل) في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب كما في المضمرات.
فتاویٰ شامی (3/6) میں ہے:
قال في شرح المنية:والحد الصحيح ما اختاره صاحب الهداية أنه الذي له أمير وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود وتزييف صدر الشريعة له عند اعتذاره عن صاحب الوقاية حيث اختار الحد المتقدم بظهور التواني في الأحكام مزيف بأن المراد القدرة على إقامتها على ما صرح به في التحفة عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمته وعلمه أو علم غيره يرجع الناس إليه فيما يقع من الحوادث وهذا هو الأصح اهـ
بدائع الصنائع (1/585) میں ہے:
وروي عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمه وعلمه أو علم غيره والناس يرجعون إليه في الحوادث وهو الأصح.
الام (1/350) میں ہے:
( قال الشافعي ) فإذا كان من أهل القرية أربعون رجلا والقرية البناء والحجارة واللبن والسقف والجرائد والشجر لأن هذا بناء كله وتكون بيوتها مجتمعة ويكون أهلها لا يظعنون عنها شتاء ولا صيفا إلا ظعن حاجة مثل ظعن أهل القرى وتكون بيوتها مجتمعة اجتماع بيوت القرى فإن لم تكن مجتمعة فليسوا أهل قرية ولا يجمعون ويتمون إذا كانوا أربعين رجلا حر ا بالغا فإذا كانوا هكذا رأيت والله تعالى أعلم إن عليهم الجمعة فإذا صلوا الجمعة أجزأتهم.
الحاوی فی فقه الشافعي (2/ 407)میں ہے:
المكان الذي تنعقد فيه الجمعة
مسألة : قال الشافعي ، رضي الله عنه : ” وإن كانت قرية مجتمعة البناء والمنازل وكان أهلها لا يظعنون عنها شتاء ولا صيفا إلا ظعن حاجة وكان أهلها أربعين رجلا حرا بالغا غير مغلوب على عقله ، وجبت عليهم الجمعة واحتج بما لا يثبته أهل الحديث أن النبي صلى الله عليه وسلم حين قدم المدينة جمع بأربعين رجلا وعن عبيد الله بن عبد الله أنه قال : كل قرية فيها أربعون رجلا فعليهم الجمعة ومثله عن عمر بن عبد العزيز . قال الماوردي : وهذا كما قال . هذه المسألة تشتمل على فصلين: أحدهما : في المكان الذي تنعقد فيه الجمعة ، والثاني : في العدد الذي تنعقد به الجمعة . فأما المكان : فمذهبنا أنها تنعقد في الأمصار ، والقرى إذا كانت القرية مجتمعة البناء ، وكان لها عدد تنعقد به الجمعة، وهم أربعون لا يظعنون عنها شتاء ولا صيفا إلا ظعن حاجة ،
وبه قال من الصحابة عمر وابن عمر وابن عباس ، ومن الفقهاء مالك ، وأحمد بن حنبل.
وقال أبو حنيفة : لا تجب الجمعة على أهل القرى ، ولا تصح إقامة الجمعة فيها ، إلا أن يكون مصرا جامعا ، فيلزمهم إقامتها .
وحد المصر عنده : أن يكون فيه إمام يقيم الحدود ، وقاض ينفذ الأحكام ، وجامع ومنبر، وبه قال علي بن أبي طالب ، رضي الله عنه ، وبه قال علي بن أبي طالب ، رضي الله عنه.
کفایت المفتی (3/238) میں ہے:
(سوال ) موضع امو کونہ جس کی آبادی میں چونتیس گھر اور اکاون مرد مکلف بستے ہیں ایضاً موضع بتاپور کہ موضع اموکونہ سے تخمیناً پانسو ہاتھ فاصلے پر ہے اس میں تیس گھر ہیں اور ستاون مرد مکلف بستے ہیں ان سب آدمیوں کا پیشہ کاشتکاری ہے اور موسم برسات میں ہر موضع کے چاروں طرف پانی سے سیلاب ہوجاتا ہے جو بدون کشتی کے آمد و رفت دشوار ہے ہر موضع کے چاروں طرف زراعت اور تین طرف ندی بھی ہے اور دونوں موضعوں کے درمیان جو فاصلہ ہے چراگاہ ہے موسم برسات میں وہ بھی دو ڈھائی ہاتھ پانی نیچے پڑتا ہے اس آبادی میں کوئی بازار وغیرہ نہیں ہے اب علی الانفراد دونوں موضعوں میں جمعہ قائم کرنا اور درمیان کی چراگاہ میں علی الاجتماع عیدگاہ بناکے نماز عید پڑھنا جائز ہے یا نہیں ؟
(جواب ۳۶۷) ان دونوں موضعوں میں جمعہ کی نماز حنفی مذہب کے موافق قائم نہ کرنا چاہئیے لیکن اگر قدیم الایام سے ان میں جمعہ قائم ہو تو اسے بند بھی نہ کرنا چاہئیے کہ دوسرے ائمہ کے مذہب کے موافق جمعہ ہوجاتا ہے۔
کفایت المفتی (3/248) میں ہے:
سوال: ایک موضع میں تقریباً 30 آدمی مصلی ہیں اور ایک مسجد ہے ہفتہ میں دو بار بڑی بازار لگتی ہے، سامان ضروری مثلاً کفن وغیرہ ملتا ہے لہذا مصلیان نماز جمعہ بھی اس موضوع میں ادا کرتے ہیں اور بچوں کی تعلیم کے لیے ایک قاری صاحب بھی مقرر ہیں۔ اب اس موضع میں شرعاً جمعہ جائز ہے یا نہیں؟
جواب: اگر نماز جمعہ وہاں عرصہ سے قائم ہے تو اب اس کو بند کرنے میں مذہبی و دینی فتنہ ہے اس لیے اس کو موقوف کرنا درست نہیں بلکہ اس مسئلہ میں امام شافعی رحمہ اللہ کے قول یا امام مالک رحمہ اللہ کے قو ل کے موافق عمل کر لینا جائز ہے۔
دوسری جگہ کفایت المفتی (3/249) میں ہے:
سوال: بستیوں میں جمعہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز ہے تو فقہاء کرام رحمہم اللہ کے مقرر کردہ شرائط کا کیا جواب ہے اور بعد ادائے جمعہ احتیاطی ادا کرنا کیسا ہے؟
الجواب: چھوٹی بستیوں میں نماز جمعہ حنفیہ کے نزدیک نہیں ہے لیکن انہوں نے جمعہ کی اہمیت کو قائم رکھتے ہوئے مصر کی تعریف میں یہاں تک تنزل کیا کہ ’’ما لا يسع أكبر مساجده أهله المكلفين بها‘‘ تک لے آئے حالانکہ ان کے اپنے اقرار ’’هذا يصدق علي كثير من القرى‘‘ سے یہ تعریف بہت سے قریٰ پر صادق آتی ہے پس نماز جمعہ کی اہمیت اور مصالح مہمہ عالیہ اسلامیہ کا مقتضیٰ یہ ہے کہ نماز جمعہ کو ترک نہ کیا جائے اگرچہ امام شافعی رحمہ اللہ کے مسلک پر عمل کے ہی ضمن میں ہو۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved