- فتوی نمبر: 10-350
- تاریخ: 03 جنوری 2018
- عنوانات: عبادات
استفتاء
کیا باتھ روم میں وضو کے دوران دعائیں پڑھ سکتے ہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
باتھ روم میں وضو کے دوران زبان سے دعائیں پڑھنا صحیح نہیں۔ البتہ دل ہی دل میں پڑھ سکتے ہیں۔
چنانچہ امداد الفتاویٰ (6/195) میں ہے:
سوال(۳۴۷۹) : قدیم ۶/۱۹۵- کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارہ میں کہ یہاں رنگوں وغیرہ کے بہتیرے مکانات میں غسل خانے و پاخانے دونوں متصل واقع ہیں دونوں کے درمیان میں کوئی دیوار وغیرہ کی آڑیا پردہ نہیں ہے پاخانے صاف رہتے ہیں جب کوئی جاتا ہے تو فراغت کے بعد زنجیر کھینچ دیتا ہے جس سے بذریعہ نل صفائی ہوجایا کرتی ہے اور غسل خانہ میں بسا اوقات پٹڑی وغیرہ بچھاکر وضو کیا جاتا ہے اور وضو کی حالت میں کچھ اذکاربھی پڑھے جاتے ہیں ۔ پس ارشاد ہوا کہ آیا ایسے غسل خانے میں اذکار کا پڑھنا حرام یا مکروہ ہے یا نہیں ؟ بینوا توجرواا
لجواب: تكره قراءة القرآن في مواضع النجاسات كالمغتسل والمخرج والمسلخ وما أشبه ذلك وأما في الحمام إن لم يكن فيه أحد مكشوف العورة وكان الحمام طاهرا فلا بأس بأن يرفع صوته بالقراءة وإن لم يكن كذلك فإن قرأ في نفسه لا يرفع صوته فلا بأس به ولا بأس بالتسبيح والتهليل وإن رفع صوته. وفي القنية لا بأس بالقراءة راكبا أو ماشيا إذا لم يكن ذلك الموضع معدا للنجاسة فإن كان يكره اه
وفيها لا بأس بالصلاة حذاء البالوعة إذا لم تكن بقربه اهـ فتحصل من هذا أن الموضع إن كان معدا للنجاسة كالمخرج والمسلخ كرهت القراءة مطلقا وإلا فإن لم يكن هناك نجاسة ولا أحد مكشوف
العورة فلا كراهة مطلقا وإن كان فإنه يكره رفع الصوت فقط إن كانت النجاسة قريبة فتأمل
ان روایات سے ثابت ہوا کہ جو موضع نجاست کے لئے موضوع ہو اور اس کی مثال میں غسل خانہ کو بھی کہا ہے وہاں صلوۃ و قراء ت ممنوع ہے اور جو موضع نجاست کے لئے موضوع نہ ہو ان میں تفصیل کی ہے اور ایسے ہی موضع میں تسبیح و تہلیل کو جائز کہاہے اس تقابل سے معلوم ہوتا ہے کہ موضع موضوع للنجاست میں تسبیح و تہلیل بھی جائز نہیں ، پس اس سے مفہوم ہوا کہ محل مندرج في السوال میں کہ غسل خانہ ہے خصوص جب کہ اس کا ایک حصہ پائخانہ بھی ہے کہ مجموعہ مکان واحد سمجھا جاتا ہے اذکار وضو بھی پڑھنے کی ضرورت نہیں ۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved