- فتوی نمبر: 33-179
- تاریخ: 29 مئی 2025
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت > قسطوں پر خرید و فروخت
استفتاء
زید نامی بندہ قسطوں پر کام کرتا ہے مثلاً زید 50 ہزار کی موٹر سائیکل خرید کر ایک لاکھ کی قسطوں پر فروخت کرتا ہے۔ خالد نے زید (بائع) کو ایک آفر کی وہ یہ کہ آپ مجھے 40 ہزار روپے قرضہ دیدیں اور دس ہزار کی کوئی گاڑی یا سامان وغیرہ خرید کردیدیں۔
زید (بائع) نے آفر قبول کی اور کہا کہ 40 ہزار روپے میں آپ کو نقد دے دیتا ہوں قرضہ کے طور پر اور میں یہ پیسے 40 ہزار بغیر کمی وزیادتی کے قسط وار ششماہی کے طور پر وصول کروں گا اور دس ہزار کا کوئی سامان یا گاڑی وغیرہ خود خرید کر یا کسی کے ذریعے خرید کر پھر آپ (خالد ) کو بیچوں گا اور اس چیز کی قیمت منافع رکھ کر آپ سے قسط وار ششماہی کے طور پر وصول کروں گا۔
تنقیح: خالد زید سے دس ہزار کا سامان 60 ہزار میں اس شرط کے ساتھ خریدے گا کہ زید خالد کو 40 ہزار نقدی قرضہ بھی دے ورنہ خالد زید سے قسط والا سامان لینے کے لیے تیار نہیں۔
وضاحت مطلوب ہے: 1۔دس ہزار والی چیز قسطوں میں کس ریٹ پر سیل ہوتی ہے؟2۔ جو چیز وہ دس ہزار میں خرید کر قسطوں پر ساٹھ ہزار میں فروخت کرے گا کیا وہ واقعی نقد میں دس ہزار کی ہے؟
جواب وضاحت:1۔ عموماً چھ ماہ کے لیے جو چیز قسطوں پر لی جاتی ہے اس کی قیمت کم ہوتی ہے لیکن یہاں بائع نے خریدار کو قرضہ دینا ہے اس لیے بائع 10 ہزار والی چیز 60 ہزار میں بیچ رہا ہے۔2۔جی نقد میں دس ہزار کی ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ عقد کرنا ناجائز اور سود پر مشتمل ہے۔
توجیہ: مذکورہ صورت میں قرض اور بیع کے معاملے کو جمع کیا جارہا ہے جوکہ جائز نہیں، نیز بیع میں قرض کی وجہ سے مبیع کی قیمت بھی زیادہ وصول کی جارہی ہے جبکہ قرض کی وجہ سے کسی بھی طریقے سے نفع لینا سود اور ناجائز ہے۔
مرقاۃ المفاتیح (6/79) میں ہے:
وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” «لا يحل سلف وبيع
(وعنه) أي عن ابن عمر (قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يحل سلف) بفتحتين (وبيع) أي معه يعني مع السلف بأن يكون أحدهما مشروطا في الآخر …… وقيل: هو أن يقرضه قرضا ويبيع منه شيئا بأكثر من قيمته فإنه حرام ; لأن قرضه روج متاعه بهذا الثمن، وكل قرض جر نفعا حرام
لمعات التنقیح (5/572) میں ہے:
قوله: (لا يحل سلف وبيع) أي: لا يحل بيع مع شرط سلفٍ، والمراد بالسلف هنا القرض، أي: لا يحل أن يقرضه قرضًا ويبيع منه شيئًا بأكثر من قيمته؛ لأن كل قرض جرّ نفعًا فهو حرام
بذل المجہود (11/223) ميں ہے:
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لا يحل سلف) بفتحتين: القرض (وبيع) أي: لا يحل بيع بشرط قرض، بأن يقول: بعتك هذا العبد على أن تسلفني ألفا، وقيل: هو أن تقرضه ثم تبيع منه شيئا بأكثر من قيمته، فإنه حرام؛ لأنه قرض جر نفعا
خلاصۃ الفتاویٰ (3/50) میں ہے:
لو كان فى الشرط منفعة لاحد المتعاقدين بان شرط البائع ان يقرض المشتري او على القلب يفسد العقد
شامی(7/395) میں ہے:
(كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا
اعلاء السنن (14/512) میں ہے:
عن على امير المؤمنين مرفوعا: كل قرض جر نفعا فهو ربا.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved