- فتوی نمبر: 24-188
- تاریخ: 23 اپریل 2024
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے اور بلی کی قیمت لینے سے منع فرمایا ہے۔(سنن ابو داود)
- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلی کی قیمت لینے سے منع فرمایا ہے۔(سنن ابو داود)
- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت ،زانیہ عورت کی کمائی اور کاہن کی کمائی سے منع فرمایا ہے۔(سنن ابو داود)
- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت سے منع فرمایا ہے اور اگر کوئی کتےکی قیمت مانگنے آئے تو اس کی مٹھی میں مٹی بھر دو۔(سنن ابو داوود)
ان احادیث کے پیش نظرکیا) (1پالتو بلی اور (2)کتے کی خرید و فروخت جائز ہے یا نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(1) مذکورہ احادیث میں بلی کی خرید و فروخت سے جو ممانعت کی گئی ہے یہ ممانعت حرمت کے درجے کی نہیں ہے، بلکہ کراہت تنزیہی یعنی ناپسندیدگی کے درجے کی ہے۔
(2) ان احادیث میں ایسے کتے کی خرید و فروخت سے منع کیا گیا ہے جو نہ شکار کے کام آسکتا ہو اور نہ حفاظت کے کام آسکتا ہو، باقی رہا شکاری کتا یا حفاظت کا کتا، تو اس کی خرید و فروخت جائز ہے، کیونکہ خود حدیث میں ایسے کتوں کو رکھنے کی اجازت دی گئی ہے اور ایسے کتوں کی خروید و فروخت کی بھی اجازت دی گئی ہے۔ تاہم بطور پیشہ کے اختیار کرنا اچھا نہیں۔
صحيح مسلم | كِتَاب : المساقَاة | باب : الأمر بقَتْلِ الكلَاب: میں ہے:
عن سالم ، عن أبيه ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال : ” من اقتنى كلبا إلا كلب صيد، أو ماشية نقص من أجره كل يوم قيراطان “.
جس شخص نے کتا حاصل کیا، اس کے اجر میں سے ہر روز دو قیراط کم ہوجاتے ہیں سوائے شکاری کتے اور ریوڑ کی حفاظت کےلیے لئے گئے کتے کے۔
سنن النسائی، کتاب البیوع،باب: مااستثنی میں ہے:
عن جابر بن عبد الله ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن ثمن الكلب والسنور إلا كلب صيد.
رسول اللہﷺ نے سوائے شکاری کتے کے، کتے اور بلی کی قمیت لینے سے منع فرمایا ہے ۔
المبسوط للسرخسي (11/ 234) میں ہے:
(وعن) إبراهيم – رحمه الله تعالى – قال: لا بأس بثمن كلب الصيد، وروي أن «النبي- صلى الله عليه وسلم – رخص في ثمن كلب الصيد» وبه نأخذ فنقول: بيع الكلب المعلم يجوز………
ثم الصحيح من المذهب أن المعلم وغير المعلم إذا كان بحيث يقبل التعليم سواء في حكم البيع حتى ذكر في النوادر لو باع جروا جاز بيعه؛ لأنه يقبل التعليم، فأما الذي لا يجوز بيعه العقور منه الذي (أى من الکلب، از فاقل) لا يقبل التعليم؛ لأنه عين مؤذ غير منتفع به فلا يكون مالا متقوما كالذئب۔
مشہور تابعی یعنی حضرت ابراہیم نخعیؒ سے مروی ہے کہ ……شکاری کتے کی قیمت لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ حدیث میں ہے کہ نبی اکرمﷺ نے شکاری کتے کی قیمت لینے کی رخصت مرحمت فرمائی ہے۔ اور ہم (حنفیہ) انہی کے قول کو اپناتے ہیں کہ سدھائے ہوئے کتے کی بیع جائز ہے۔………… پھر صحیح مذہب یہ ہے کہ کتا چاہے سدھایا ہوا ہو یا سدھایا ہوا نہ ہو، بشرطیکہ ایسا ہو کہ سدھایا جاسکتا ہو، دونوں کی خرید و فروخت کا ایک ہی حکم ہے۔ اسی لئے ’’نوادر‘‘ میں یہ مسئلہ مذکورہ ہے کہ اگر کسی شخص نے پلّا خیردا تو اس کی بیع جائز ہے کیونکہ اس کو سدھایا جاسکتا ہے، رہا وہ کتا جس کی خرید و فروخت جائزنہیں، تو وہ باؤلا کتا ہے جس کو سدھایا نہیں جا سکتا۔ اس لئے کہ وہ ایسا موذی جانور ہے جس سے کچھ نفع حاصل نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا وہ بھیڑیے کی طرح مال متقوم ہی نہیں۔
فہم حدیث جلد (3/115) میں ہے:
عن ابى جحيفة ان النبىﷺ نهى عَن ثمن الدّم و ثمن الکلب(بخارى)
حضرت ابوجحیفہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے خون (خواہ وہ انسان کا ہو یا کسی جانور کا ہو اس) کی قیمت (لینے) سے اور (شوقیہ پالے ہوئے) کتے کی قیمت (لینے) سے (اور مراد ہے ان دونوں کی خرید و فروخت سے) منع فرمایا (کیونکہ خون تو محض نجاست ہے اور شوقیہ کتا پالنا بالکل حرام ہے)۔
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (5/ 1894)میں ہے:
(وعن جابر أن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – نهى عن ثمن الكلب والسنور) : بتشديد السين المكسورة والنون المفتوحة وهو الهر، في شرح السنة: هذا محمول على ما لا ينفع، أو على أنه نهي تنزيه لكي يعتاد الناس هبته وإعارته والسماحة به، كما هو الغالب، فإن كان نافعا وباعه صح البيع وكان ثمنه حلالا، هذا مذهب الجمهور إلا ما حكي عن أبي هريرة وجماعة من التابعين – رضوان الله تعالى عليهم أجمعين، واحتجوا بالحديث۔
والحديث يؤيد مذهب أبي حنيفة وأصحابه في تجويزهم بيع الكلب، لأن المناسبة بين المتعاطفين في النهي توجب ذلك: قال ابن الملك: وكره بعض بيع السنور الأهلي والوحشي بظاهر الحديث، وحمله الأكثرون على الوحشي منها للعجز عن تسليمه، فإنه لو ربط لا ينتفع به لأن نفعه صيد الفأرة، ولو لم يربط لربما ينفر فيضيع المال المصروف في ثمنه.
تكملة فتح الملهم (1/501) میں ہے:
قوله (والسنور) استدل به من قال بحرمة بيع السنور، وروي ذلك عن أبي هريرة و طاووس، ومجاهد، وجابر بن زيد، وبه أخذ ابن حزم في المحلي. واتفق الأئمة الأربعة وجمهور من سواهم علي جواز بيعه، وحملوا النهي في حديث الباب علي التنزيه، وهو أصح ما قيل فيه.
واعتذر بعض العلماء عن حديث الباب بطرق أخري، فقيل: ذكر السنور في هذا الحديث ضعيف، ولكن رده النووي، والعيني، وغيرهما لقوة سنده، وقيل: الحديث محمول علي الهر المتوحش الذي لا يقدر علي تسليمه، وقيل: إن النهي عن ذلك كان في ابتداء الإسلام حين كان السنور محكوما بنجاسته، ثم لما حكم بطهارته حل ثمنه. وذكر البيهقي في سننه هذين القولين ثم قال: “وليس علي واحد من هذين القولين دلالة بينة”. و الصحيح ما ذكرنا من أن النهي محمول علي التنزيه، ليعتاد الناس هبته و إعارته.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved