• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

بیع سلم کے صحیح ہونے کیلئے شرائط

استفتاء

(1)۔بیع سلم کے بارے میں سمجھادیں (2)۔لہسن کی ایڈوانس بکنگ کرنا کیسا ہے؟  ابھی ریٹ کم ہے اگر  خریدار ابھی کچھ رقم ایڈوانس دے کر بکنگ کروالے  کہ میں آپ سے آج کے ریٹ پر  مئی ،جون میں 15من لہسن کا بیج لوں گا اور یہ اس لیے تا  کہ بعد میں  ریٹ زیادہ ہوجانے پر اسی ریٹ پر ملے اور ایگریمنٹ کرے اور اس میں یہ شرط بھی شامل ہوکہ اگر اس وقت وہ مال خریدا ر کو پسند نہ آئے تو وہ ایگریمنٹ ختم کرسکتا ہے اور اس کے پیسے بغیرکسی کٹوتی کے اس کو واپس کردئے جائیں گے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1)۔ اس طرح سے بیع کرنا کہ خریدار نے قیمت کی ادائیگی تو ابھی نقد کردی اور بائع سامان کچھ عرصہ بعد مہیا کرے گا اس کو بیع سلم کہتے ہیں ۔ لیکن اس کے جائز ہونے کی کئی ضروری شرطیں ہیں  ان میں سے اگرکوئی ایک شرط بھی نہ پائی جائے تو بیع   سلم جائز نہ ہوگی ۔ شرائط کی تفصیل کیلئےدیکھیئے مسائل بہشتی زیور،جلد دوم صفحہ 277۔

(2)۔مذکورہ صورت جائز نہیں ہے کیونکہ مذکورہ صورت  میں مبیع(یعنی خریدی ہوئی  چیز ) ادھار ہے جو صرف بیع سلم میں ہی ہوسکتی ہے جبکہ مذکورہ صورت میں صرف کچھ رقم ایڈوانس جمع کروائی جائےگی اور بیع سلم کے لیے یہ شرط ہے کہ کل رقم معاملہ  کرنے کی مجلس میں ہی اداکردی جائے۔

نیز  بیع سلم ميں  خیار  رؤیت  حاصل نہیں ہوتا لہذا  ایگریمنٹ میں  یہ شرط لگانا کہ اگر وہ مال خریدار کو پسند نہ آئے تو وہ ایگریمنٹ ختم کرسکتا ہے اور اس کے تمام پیسے بغیر کسی کٹوتی  کے اس کو واپس کردئے جائیں گےجائز نہیں لہذا اگر ایسا معاملہ کرنا ہی ہے تو بیع سلم کی تمام شرائط کا لحاظ رکھ کر کیا جائے ۔

فتاوی ہندیہ(5/16) میں ہے:وأما الشروط التي في المسلم فيه  فأحدها بيان جنس المسلم فيه حنطة أو شعير والثاني بيان نوعه حنطة سقية أو بخسية أو جبلية أو سهليةوالثالث بيان الصفة حنطة جيدة أو رديئة أو وسط كذا في النهاية ….والرابع أن يكون معلوم القدر بالكيل أو الوزن أو العدد أو الذرع كذا في البدائع …الخامس أن يكون المسلم فيه مؤجلا بأجل معلوم حتى إن سلم الحال لا يجوز واختلف في أدنى الأجل الذي يجوز السلم بدونه عن محمد رحمه الله تعالى أنه قدر أدناه بشهر وعليه الفتوى كذا في المحيط…السادس أن يكون المسلم فيه موجودا من حين العقد إلى حين المحل حتى لو كان منقطعا عند العقد موجودا عند المحل أو على العكس أو منقطعا فيما بين ذلك وهو موجود عند العقد والمحل لا يجوز كذا في فتح القدير وحد الوجود أن لا ينقطع من السوق وحد الانقطاع أن لا يوجد في السوق وإن كان يوجد في البيوت هكذا في السراج الوهاج….

شرح مجلہ(1/401) میں ہے:"ولا یثبت فی المسلم فيه خيار الرؤية لأنه دين في الذمة ويثبت خيار العيب”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved