• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

’’بیشک جھاڑ پھونک، تعویذات اور محبت کے اعمال سب شرک ہیں‘‘ کی توضیح

استفتاء

سیدہ زینب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا جو کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی اہلیہ تھیں، سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جب باہر کا کام ختم کرکے گھر آتے تو دروازے تک پہنچ کر کھنکارتے، تاکہ گھر والے کسی ناپسندیدہ حالت پر نہ ہوں،ایک دن وہ آئے تو کھنکارا، میرے پاس ایک بڑھیا تھی، جو مجھے ورم کا دم کررہی تھی، میں نے اسے چار پائی کے نیچے بٹھا دیا، سیدنا عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ داخل ہوئے اور میرے ایک پہلو میں بیٹھ گئے، جب انھوں  نے میری گردن میں ایک دھاگا دیکھا تو کہا: یہ کیا ہے؟ میں نے کہا: یہ دھاگا ہے، میرے لئے دم کیا گیا ہے، وہ باندھا ہوا ہے، انھوں نے اسے پکڑا اور کاٹ ڈالا اور کہا: عبداللہ کی آل اس شرک سے بے پرواہ ہے، میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک جھاڑ پھونک، تعویذات اور محبت کے اعمال سب شرک ہیں۔ میں نے کہا: آپ ایسا نہ کہیں، میری آنکھ پھڑکتی تھی، میں فلاں یہودی کے پاس گئی، جو دم کرتا تھا، جب وہ دم کرتا تھا تو آنکھ پر سکون طاری ہو جاتا تھا، انھوں نے کہا: یہ شیطانی عمل تھا، وہ شیطان اپنے ہاتھ کے ساتھ مارتا تھا تو آنکھ پھڑکنے لگ جاتی تھی، جب تو دم کرواتی تو وہ شیطان ہاتھ روک لیتا تھا، تجھے وہ دعا کافی ہے، جو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پڑھا کرتے تھے:

  أذهب الباس رب الناس ‌اشف ‌أنت ‌الشافي، لا شفاء إلا شفاؤك، شفاء لا يغادر سقما

  (تکلیف دور کردے اے لوگوں کے رب! شفاء دے تو ہی شفاء دینے والا ہے نہیں ہے کوئی شفاء ، مگر تیری شفاء، ایسی شفاء دے جو بیماری باقی نہ چھوڑے)۔

کیا یہ حدیث صحیح ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

یہ حدیث صحیح ہے۔ لیکن مذکورہ حدیث میں جن تعویذات اور جھاڑ پھونک کو شرک کہا گیا ہے اس سے مراد وہ تعویذات اور جھاڑ پھونک ہے جو کفریہ یا شرکیہ کلمات پر مشتمل ہوں  باقی رہے وہ تعویذات اور جھاڑ پھونک جو قرآن و حدیث کے الفاظ پر مشتمل ہوں وہ شرک نہیں بلکہ جائز ہیں، چنانچہ سنن ابی داود میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص  (رضی اللہ عنہما) اپنے بالکل چھوٹی عمر کے  (ناسمجھ)  بچوں  کے گلے میں یہ کلمات ’’أعوذ بكلمات الله التامة من غضبه وشر عباده ومن همزات الشياطين وأن يحضرون‘‘ لکھ کر لٹکاتے تھے، اگر ایسے تعویذ بھی حرام یا شرک ہوتے تو یہ صحابی حرام اور شرک والا تعویذ اپنے بچوں کو نہ پہناتے۔

سنن ابی داود (كتاب الطب، باب الرقی، ح:3897) میں ہے:

"عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يعلمهم من الفزع كلمات ، أعوذ بكلمات الله التامة من غضبه وشر عباده ومن همزات الشياطين وأن يحضرون ، وكان عبدالله بن عمرو يعلمهن من عقل من بنيه ومن لم يعقل كتبه فاعلق عليه”

سنن ابی داود (کتاب السنہ،باب فی القرآن،ح:4736) میں ہے:

”حدثنا عثمان بن أبي شيبة، حدثنا جرير، عن منصور، عن المنهال بن عمرو، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم يعوذ الحسن والحسين «‌أعيذكما بكلمات الله التامة، من كل شيطان وهامة، ومن كل عين لامة» ثم يقول: كان أبوكم يعوذ بهما إسماعيل وإسحاق“

معالم السنن للخطابی (کتاب الطب، باب شرب التریاق، ج:4 ، ص: 220) میں ہے:

"والتميمة، يقال إنها خرزة كانوا يتعلقونها يرون أنها تدفع عنهم الآفات، واعتقاد هذا الرأي جهل وضلال، إذ لا مانع ولا دافع غير الله سبحانه، ولا يدخل في هذا، التعوذ بالقرآن والتبرك والاستشفاء به، لأنه كلام الله سبحانه، والاستعاذة به ترجع إلى الاستعاذة بالله سبحانه”

المیسر فی شرح مصابیح السنۃ للتوربشتی (ج:3، ص:1008، کتاب الطب، ح:3412) میں ہے:

"وفي الحديث: (التمائم والرقى من الشرك) فعلمنا أن المراد به منها ما كان من تمائم الجاهلية ورقاها، على ما بين في غير موضع، فأما القسم الذي يختص بأسماء الله وكلماته، فإنه غير داخل في جملته، بل هو مستحب مرجو البركة، عرف ذلك من أصل السنة، لا ينكر فضله وفائدته”

فتح الباری لابن حجر (باب الرقی بالقرآن والمعوذات، ج:11، ص:352) میں ہے:

"والتمائم جمع تميمة وهي خرز أو قلادة تعلق في الرأس كانوا في الجاهلية يعتقدون أن ذلك يدفع الآفات  …..وإنما كان ذلك من الشرك لأنهم أرادوا دفع المضار وجلب المنافع من عند غير الله، ولا يدخل في ذلك ما كان بأسماء الله وكلامه فقد ثبت في الأحاديث استعمال ذلك”

مرقاۃ المفاتیح (کتاب الطب والرقی، ج:13، ص:296) میں ہے:

"والمراد من التميمة ما كان من تمائم الجاهلية ورقاها فإن القسم الذي يختص بأسماءالله تعالى وكلماته غير داخل في جملته بل هو مستحب مرجو البركة عرف ذلك من أصل السنة”

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved