• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

بیٹے کی رقم سے تعمیر شدہ عمارت میں وراثت

استفتاء

******خود بقید حیات ہیں اور ان کے پانچ بیٹے **، **، **،**، ** اور ایک بیٹی** کل اولاد ہیں۔ ***کے دو قطعہ ہائے اراضی سکنی بالترتیب ساڑھے دس مرلہ اور ساتھ مرلہ ملکیت ہیں جس میں ساڑھے دس مرلہ قطعہ اراضی پر خود ***نے عمارت تعمیر کی اور ان کی اولاد میں سے بعض ان کےساتھ اس عمارت میں رہائش پذیر ہیں۔ جبکہ دوسرے قطعہ اراضی سات مرلہ پر بڑے بیٹے *** نے باجازت والد خود اپنے وسائل سے مکان تعمیر کیا اور اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اس میں رہائش پذیر رہا ہے۔ جبکہ پلاٹ ***( والد) کی ملکیت ہی ہے۔

12 جولائی 2011ء کو *** وفات پاگیا اور پیچھے والد، چار بھائی،ا یک بہن، ایک بیوہ اور دو بیٹے سوگوار چھوڑ گیا۔ آپ سے استدعا ہے کہ شرعی تقسیم کیسے ہوگی اس کی وضاحت فرمادیں تاکہ حق دار کو انکا حق مل سکے والد نے ابھی تک کوئی جائیداد کسی بیٹے یا بیٹی کو تقسیم کرکے نہيں دی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

پلاٹ والد ( ***) کی ملکیت ہے اور جو تعمیر *** نے والد کی اجازت سے کی تھی وہ ان کی ذاتی مکیت ہے۔ جو ان کے ورثاء میں اپنے اپنے حصوں کے بقدر تقسیم ہوگی۔ شرعی ورثاء یہ ہیں والد، بیوہ، دو بیٹے۔

تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ کل مال کے 48 حصے کیے جائیں گے جس میں سے 8 حصے والد کو، 6 حصے بیوہ کو اور 17 حصے ہر بیٹے کو ملیں گے۔ بہن بھائیوں کو کچھ نہیں ملے گا۔ صورت تقسیم یہ ہے:

24×2=48

والد                   بیوہ                دو بیٹے

6/1                 8/1              عصبہ

2×4                2×3             2×17

8                     6                 17+17

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved