• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بہن اور بھائیوں میں وراثت کی تقسیم

استفتاء

ہم لوگوں نے**سے اپناآبائی مکان بیچ کر** میں ایک مکان خریدا تھا، ** والے مکان کی رقم 22لاکھ 40ہزار روپے تھی،ہم لوگ چار بھائی اور دو بہنیں ہیں،ہمارے والد نے اس وقت اپنے ہاتھ سے وصیت  لکھ دی تھی جس کی تفصیل درج ذیل ہے:

میں*** ہوش وحواس بقلم خود یہ تحریر کر رہا ہوں کہ میں نے اپنا مکان*** محلہ نئی***جوکہ مجھے اپنے والد کی وراثت میں ملا تھا فروخت کردیا ہے، مکان کے فروخت کرنے میں کل  قیمت مبلغ تئیس  لاکھ23,00000 وصول کی ہے،یہ رقم میں اپنی اولاد میں تقسیم کررہاہوں،اس لئے یہ تحریر کر رہا ہوں تاکہ کسی رقم کا کوئی ابہام نہ رہے۔

جملہ وارثان اور رقم کی تفصیل درج ذیل ہے:

کل قیمت فروخت مکان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔23,00000

برائے ادائیگی قرضہ ***۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔1,00000

بقایا رقم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔22,00000

برائے ادائیگی حصہ داران فی کس رقم:

1۔***۔۔۔۔۔۔۔۔4,40000،(چار لاکھ چالیس ہزار)۔

2۔***۔۔۔۔۔۔۔4,40000،(چار لاکھ چالیس ہزار)۔

3۔***۔۔۔۔۔۔۔۔4,40000،(چار لاکھ چالیس ہزار)۔

4۔***۔۔۔۔۔۔۔4,40000،(چار لاکھ چالیس ہزار)۔

5۔ ***۔۔۔۔۔۔۔2,20000،(دو لاکھ بیس ہزار)۔

6۔***۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔2,20000،(دو لاکھ بیس ہزار)۔

1۔**** کو مبلغ 200000 (دو لاکھ)روپیہ ادا کردیا گیا ہے،اب اس کو جو ادائیگی کرنی ہے وہ دولاکھ چالیس ہزار روپے (2,40000) ہیں۔

2۔***والے مکان کی رجسٹری کرانے تک کوئی اخراجات ہوئے تو وہ اسی تناسب سے حصہ داران سے کاٹ لئے جائیں گے۔

3۔***میں جو مکان خریدا ہے اس کی رجسٹری کے اخراجات بذمہ***،*** اور*** ہوں گے۔

4۔لاہور والے مکان میں صرف***،*** اور *** حصہ دار ہوں گے، یا آئندہ بھی یہ تینوں بھائی کوئی جائیداد خریدیں تو وہ جائیداد بھی انہیں تینوں بھائیوں کی ملکیت ہوگی،اور اس میں***اور *** کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔

5۔پراپرٹی کی خریدوفروخت میں***، ****،اور*** باہمی رضامندی سے جوبھی فیصلہ کریں  یہ ان کی صوابدید پر ہوگا۔

6۔میں نے اپنا قرضہ اتارنے کے لئے مبلغ ایک لاکھ روپیہ لینا ہے میرا قرضہ اتارنا اور***،***اور*** کا حصہ ادا کرنا بذمہ***،**** اور **** ہوگا۔

اللہ تعالی کا مجھ گنہگار پر احسان ہے کہ میں نے اپنی جائیداد کی تقسیم قرآن وسنت کے مطابق کرنے کی کوشش کی ہے،اور حصہ داروں کوان کا حق دے دیاہے،میں آج اس فرض سے سبکدوش ہورہا ہوں،اور مجھے امید ہے کہ میری اولاد میری اس تحریر کے مطابق عمل کرے گی،اور یہی مجھے اپنی اولاد پر اعتماد ہے۔

اس کے ساتھ ہی میں اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ وہ میری اولاد پر اپنی رحمت نازل کرتا رہے اور انہیں اپنے فرائض ادا کرنے اور بہتر فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔

اس وصیت کے مطابق ہم بھائیوں میں سے ہر ایک کے حصے میں4لاکھ40 ہزار روپے اور بہنوں میں سے ہر ایک کے حصے میں2لاکھ20ہزار آتے تھے،والد صاحب نے** والا مکان ہم تین بھائیوں کے نام لگادیا اور ہمیں بولا کہ اپنے ایک بھائی اور دوبہنوں کو حصہ تم لوگوں نے دینا ہے،ہم نے ایک بھائی کو اس کے حصے میں سے2 لاکھ روپے دے دئیےاور اس کے2لاکھ40ہزار روپے باقی رہ گئے،جبکہ ایک بہن کو بھی2لاکھ روپے دے دیئے تھےاور اس کے صرف 20ہزار باقی رہ گئے ہیں۔

اب پوچھنایہ ہے کہ ہم***والا مکان بیچ رہے ہیں جس کا ہمیں60لاکھ مل رہا ہے،اب جن بھائیوں کوحصہ دینے والا رہ گیا ہے وہ کس تناسب سے دیا جائے گا؟

وضاحت مطلوب ہے: جن بہن بھائیوں کا حصہ دینا ہے ان کا کیا مؤقف ہے اور کیا مطالبہ ہے؟

جواب وضاحت: ان کا مطالبہ تو کچھ  نہیں ہے جو ان کا شرعی حق بنتا ہے وہ اس پر رضامند ہوں گے، انشاء اللہ۔

وضاحت مطلوب ہے:(1) مذکورہ تقسیم صرف کاغذ پر ہوئی تھی یا عملاً بھی ہر ایک کو ان کے حصوں کی رقم دیدی گئی تھی؟ (2)***والا مکان کس نے خریدا اور کن پیسوں سے خریدا؟ کیا اس میں مزید کسی کے پیسے استعمال ہوئے؟ (3)کیا*** والا مکان پہلے والد کے نام ہوا اور پھر بیٹوں کے نام ہوا یا براہ راست بیٹوں کے نام ہوا؟ (4) بھائی اور بہنوں کے حصے کی رقم ادا کرنے میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی؟ (5) جس بھائی اور بہنوں کی رقم باقی ہے ان کے مذکورہ تحریر پر دستخط کرواکر بھیجیں۔

جواب وضاحت: (1) عملاًاس رقم سے صرف ***کو 2 لاکھ روپے ادا کئے تھے۔(2)*** والا مکان انہیں *** والے پیسوں سے خریدا گیا تھا جس میں*** اور والد صاحب رہتے ہیں۔(3)** والا مکان خریدتے وقت سب بھائیوں اور والد صاحب کی رضا مندی سے اسکی رجسٹری ** کے نام کی گئی تھی (4)** والا مکان ہم نے 2009 میں 31 لاکھ میں خریدا تھا ۔ 22 لاکھ*** والے مکان کے اور 9 لاکھ روپے میں نے یعنی ** نے ڈالے تھے ۔ایک بھائی اور دو بہنوں کے حصے ادا کرنے کا ہمارے والد صاحب نے ہم تین بھائیوں (****) کو کہا تھا۔ جس میں سے ہم نے صرف ایک بہن *** کو دو لاکھ روپے ادا کئے تھے ، باقی ادا کرنے کیلئے ہمارے تین بھائیوں کے حالات ہی کچھ ایسے ہو گئے کہ ہم ادا نہ کرسکے۔ابھی یہ مکان 84 لاکھ 80 ہزار میں سیل ہوا ہے، بڑے بھائی اور والد صاحب نے مجھے بولا کہ اس وقت جو تم نے 9 لاکھ روپے مکان کی خریداری میں ڈالے تھے اسی تناسب سے تم اپنے پیسوں کے عوض 24 لاکھ اور 80 ہزار روپے رکھ لو اور باقی 60 لاکھ سب میں شریعت کے مطابق تقسیم کر دو۔مجھ سے کسی بہن یا بھائی نے حصے کا مطالبہ آج تک نہیں کیا لیکن میرے ضمیر پر ایک بوجھ ہے کہ میں نے سب کے حصے ادا کرنے ہیں ، اس لیے یہ مکان فروخت کرکے سب کو حصے دینے کا ارادہ کیا ہے۔ہمارے والد صاحب ماشاءاللہ باصحت حیات ہیں اور میرے ساتھ ہی رہتے ہیں ۔ میں نے یہ مکان بیچنے کا فیصلہ بھی اسی لئے کیا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ہی سب کچھ کر جائیں ۔ اللہ تعالیٰ انکو صحت اور تندرستی والی لمبی عمر عطا کرے اور انکا سایہ باصحت ہمارے سروں پر قائم رکھے۔(5)  میں نے آپ کے فون کرنے پر بتایا ہے کہ اس تحریر پر سب بہن بھائیوں کے دستخط کروانا ذرا مشکل ہے کیونکہ بہن بھائ***** میں رہتے ہیں ۔ اسکی آپ نے ایک آپشن یہ دی تھی کہ جن کے حصے رہتے ہیں انکے فون نمبر دے دیں تاکہ ان سے رابطہ کیا جا سکے۔ تو انکے نمبر میں آپ کو دے دیتا ہوں

نوٹ: ان نمبروں پر رابطہ کیا گیا تو سب نے مذکورہ تحریر سے اتفاق کیا صرف*** نے اختلاف کیا اس لیے** سے ان کا اختلافی  مؤقف تحریری طور پر مانگا گیا تو انہوں نے اپنا مؤقف تحریری طور پر دینے سے انکار کردیا اور کہا کہ کچھ تفصیلی باتیں  ہیں۔ بھائی ہمارے ساتھ بیٹھ کر بات  کرے اور معاملہ طے کرے۔ اس کے بعد دارالافتاء کی جانب سے واٹس ایپ کے ذریعے ان کو درج ذیل تحریر بھیجی گئی:

"السلام علیکم محترم!***: دارالافتاء والتحقیق کی جانب سے آپ کو یہ تحریر ارسال کی جا رہی ہے۔چونکہ آپ اپنا موقف تحریری طور پر نہیں دینا چاہتے اس لیے ہم آپ کے باقی بہن بھائیوں کے مؤقف کے مطابق جواب دیں گے۔اس کے بعد آپ کے مؤقف کو سننے کے ہم پابند نہ ہوں گے”

یہ تحریر بھیجنے کے باوجود **صاحب کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

** والا مکان آپ کے والد صاحب کا ہے،آپ کے والد صاحب اگر یہ مکان یا اسے فروخت کرکے اس کی قیمت اپنی اولاد میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو وہ کرسکتے ہیں، نیز بیٹے بیٹیوں میں تقسیم کا یہ تناسب  کہ بیٹے کو دو حصے اور بیٹی کو ایک حصہ دیا جائے شرعاً درست ہے۔

 

نوٹ:  جس بیٹے بیٹی کو جتنی رقم پہلے دی جاچکی ہے اس کے تناسب سے ان کا حصہ موجودہ قیمت میں سے کم کیا جاسکتا ہے نیز جس بیٹے کی جتنی رقم مکان خریدنے میں یا اپنے کسی بہن بھائی کو دینے میں استعمال ہوئی اسی تناسب سے وہ زائد حصے کا حقدار ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved