- فتوی نمبر: 22-253
- تاریخ: 07 مئی 2024
- عنوانات: خاندانی معاملات > نکاح کا بیان
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے بہنوئی کی چھوٹی بہن طلاق یافتہ ہے اور اپنی ماں کے گھر رہتی ہے، اس نے میری بھابھی یعنی اپنی بڑی بہن کو بتایا کہ جب گھر میں کوئی نہیں تھا تو اس کے بھائی نے بد نیتی سے اس کے ساتھ کچھ کرنے کی کوشش کی ہے، یہ نہیں بتایا کہ اس نے زبان سے اسے گناہ پر آمادہ کرنے کی کوشش کی یا ہاتھ لگایا یا پھر زبردستی کچھ کرنے کی کوشش کی، البتہ یہ بتایا کہ جب بھی گھر میں کسی جگہ اکیلے میں ملتا ہے تو کپڑوں کے اوپر سے ہی اپنی شرمگاہ کو پکڑ کر مجھے دکھاتا ہے اور میرے قریب آنے کی کوشش کرتا ہے۔
بہشتی زیور حصہ چہارم، مسئلہ نمبر 19 میں لکھا ہے کہ شوہر رات کو اپنی بیوی کو جگانے کے لئے اٹھا مگر غلطی سے لڑکی پر ہاتھ پڑ گیا یا ساس پر ہاتھ پڑ گیا اور بیوی سمجھ کر جوانی کی خواہش کے ساتھ اس کو ہاتھ لگایا تھا تو اب وہ مرد اپنی بیوی پر ہمیشہ کے لئے حرام ہو گیا کوئی صورت جائز ہونے کی نہیں ہے، اور لازم ہے کہ یہ مرد اس عورت کو طلاق دیدے۔
معلوم یہ کرنا ہے کہ (1) مندرجہ بالا مسئلہ کی رو سے کیا اس لڑکے کا نکاح ٹوٹ گیا ہے جس نے اپنی بہن کے ساتھ یہ حرکت کی ہے؟ (2) اس بات کی تشریح مطلوب ہے کہ مذکورہ مسئلہ میں موجود جملہ ’’لڑکی پر ہاتھ پڑ گیا ‘‘میں لڑکی سے کون مراد ہے ؟ بیٹی، بہن، سالی یا کوئی اور؟ (3) وہ کون کون سے رشتے ہیں جن کے ساتھ ایسا معاملہ ہونے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے؟ (4) بالغ یا نابالغ ہونے سے اس مسئلے پر کوئی فرق پڑتا ہے؟ (5) یہ اشکال بھی دور فرمائیں کہ اگر ایسا معاملہ غلطی سے غیر ارادی طور پر ہوا ہو تو شریعت کی نظر میں ایسا آدمی مجرم کیوں ٹھہرتا ہے؟
محمد عاصم
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(1) بہن کو شہوت سے ہاتھ لگانا یا اس سے زنا کی کوشش کرنا اگرچہ سخت گناہ کا کام ہے لیکن اس سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
(2) بہشتی زیور کے مسئلہ میں لڑکی سے بیٹی مراد ہے۔
(3) بیوی کا شوہر کے اصول (باپ، دادا وغیرہ) یا فروع (بیٹا پوتا وغیرہ) میں سے کسی کے ساتھ ایسا معاملہ ہو جائے یا شوہر کا بیوی کے اصول (ماں، دادی وغیرہ) یا فروع (بیٹی، پوتی وغیرہ) میں سے کسی کے ساتھ ایسا معاملہ ہو جائے تو بیوی شوہر پر حرام ہو جاتی ہے۔
(4) جس لڑکا لڑکی کے درمیان ایسا واقعہ پیش آئے حرمت مصاہرت کے ثبوت کے لیے ان دونوں کا کم از کم مراہق ہونا ضروری ہے، مراہق ہونے کی کم از کم حد لڑکے کے لیے 12 سال اور لڑکی کے لیے 9 سال ہے،لہذا دونوں میں سےکسی ایک کی عمر اس سے کم ہو تو حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہو گی۔
(5) اگر کسی سے غلطی سے ایسا فعل سرزد ہو جائے تو وہ شریعت کی نظرمیں مجرم نہیں ہے اس لیے اس فعل کا کوئی گناہ اس پر نہیں ہے۔ تاہم مجرم نہ ہونے کے باوجود حرمت مصاہرت کے احکام جاری ہونگے کیونکہ ان احکام کا تعلق موجب حرمت افعال کو جان بوجھ کر کرنے یا غلطی سے کرنے سے نہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے قتل خطا میں اگرچہ قتل کا گناہ نہیں ہوتا لیکن دیت پھر بھی واجب ہوجاتی ہے یا نماز میں اگر غلطی سے بات چیت کرلے تو اگرچہ گناہ نہیں تاہم نماز ٹوٹ جاتی ہے۔
درمختار (4/114) میں ہے:
حرم أيضا بالصهرية (أصل مزنيته) أراد بالزنا في الوطء الحرام (و) أصل (ممسوسته بشهوة) ولو لشعر على الرأس بحائل لا يمنع الحرارة (وأصل ماسته وناظرة إلى ذكره والمنظور إلى فرجها) المدور (الداخل) ولو نظره من زجاج أو ماء هي فيه (وفروعهن) مطلقا.
درمختار مع ردالمحتار (117/4) میں ہے:
(فلو تزوج صغيرة لا تشتهى، فدخل بها فطلقها وانقضت عدتها وتزوجت بآخر جاز) للأول (التزوج ببنتها) لعدم الإشهاء وكذا تشترط الشهوة في الذكر؛ فلو جامع غير مراهق زوجة أبيه لم تحرم فتح. (ولا فرق) فيما ذكر (بين اللمس والنظر بشهوة بين عمد ونسيان) وخطأ، وإكراه، فلو أيقظ زوجته أو أيقظته هي لجماعها فمست يده بنتها المشتهاة أو يدها ابنه حرمت الأم أبدا فتح.
(قوله: فلو جامع غير مراهق إلخ) …… فتحصل من هذا: أنه لا بد في كل منهما من سن المراهقة وأقله للأنثى تسع وللذكر اثنا عشر؛ لأن ذلك أقل مدة يمكن فيها البلوغ كما صرحوا به في باب بلوغ الغلام، وهذا يوافق ما مر من أن العلة هي الوطء الذي يكون سببا للولد أو المس الذي يكون سببا لهذا الوطء، ولا يخفى أن غير المراهق منهما لا يتأتى منه الولد.
فتاوی محمودیہ (11/358) میں ہے:
سوال: ایک مسئلہ ہے کہ مرد رات کو اپنی بیوی کو جگانے کے لئے اٹھا مگر غلطی سے لڑکی پر ہاتھ پڑ گیا اور بیوی سمجھ کر جوانی کی خواہش کے ساتھ اس کو ہاتھ لگایا تو مرد اپنی بیوی پر ہمیشہ کے لئے حرام ہو گیا، لازم ہے کہ مرد عورت کو طلاق دیدے، اس میں غلطی کی کوئی رعایت نہیں، جب منشائے دلی اس کا ایک فعل کا نہیں تھا تو ایسی سخت سزا کیوں دی جاتی ہے؟ پھر یہ کہ کرے کوئی بھرے کوئی نزلہ بر عضو ضعیف ریزد کا مضمون ہے، والسلام۔
الجواب حامدا و مصلیا
اگر کوئی ہرن کو بندوق مارے اور کسی آدمی کو غلطی سے لگ جائے تو اس غلطی سے بالکل تو اس کی معافی نہیں ہو جاتی ہے، بلکہ خون بہا دلایا جاتا ہے اور وہ بھی مارنے والے کے اعزاء سے دلایا جاتا ہے، دیکھیے یہاں بھی اسی طرح ہے، یعنی اگر جان کر مارتا تو قتل کیا جاتا ہے، غلطی کی تو اتنی رعایت ہوئی کہ خون بہا سے جان بچ گئی، نیز گناہ نہیں ہوا۔ صورت مسؤلہ میں بھی اگر جان کر کرتا اور قاضی شرعی تک اطلاع پہنچتی تو وہ حسب صوابدید تعزیرا سزا دیتا، نیز گناہ عظیم کا مرتکب قرار پاتا، غلطی کی وجہ سے سزا اور گناہ دونوں سے بچ گیا۔ بسا اوقات ایک کے فعل کا اثر دوسرے پر بھی پہنچتا ہے جیسا کہ مثال مذکور میں اعزاء سے خون بہا دلایا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی ناسمجھ بچہ کسی کا نقصان کر دے تو اس کی ذمہ داری بھی بڑوں پر آتی ہے، غور کرنے سے مثالیں ملیں گی، اور یہ سب دنیوی احکام ہیں آخرت میں بلاوجہ ایک کے فعل کا گناہ دوسرے کو بھگتنا نہیں پڑے گا۔ جان کر فعل مذکور کرنے سے جس قدر گناہ ہوتا ہے ( حرمت تو بہرحال ہے) اس کے مقابلہ میں حرمت کس قدر ہلکی اور نرم سزا ہے غور کا مقام ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved