- فتوی نمبر: 33-99
- تاریخ: 28 اپریل 2025
- عنوانات: عبادات > زکوۃ و صدقات > مصارف زکوۃ کا بیان
استفتاء
اگر غیر شادی شدہ بہن اپنے بھائیوں اور والدین کے ساتھ رہ رہی ہو مگر گھر کا نظام اجتمائی (joint)ہو جس میں سب بھائی مل کر خرچ اٹھاتے ہوں اور اس بہن کی کفالت بھی اسی اجتماعی خرچ سے ہوتی ہو تو کیا ایسی صورت میں:
(1) اسی گھر میں رہنے والا بھائی اس بہن کو زکوۃ دے سکتا ہے؟
(2) زکوۃ کی رقم سال پورا ہونے سے قبل اندازہ لگا کر قسطوں میں دے سکتے ہیں تاکہ اس کو ماہانہ خرچ ملتا رہے؟
(3) ایسا کرنے کی صورت میں کیا اسے بتانا ضروری ہوگا کہ یہ زکوۃ کی رقم ہے؟
وضاحت مطلوب ہے:والد کے ہوتے ہوئے بھائیوں کے کفالت کی وجہ کیا ہے؟
جواب وضاحت:والد صاحب ملازمت سے ریٹائر ہیں۔گھر کے اجتماعی خرچ میں ڈالنے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔
پنشن ذاتی استعمال میں رکھتے ہیں۔ زرعی شوق ہے۔گاؤں میں ان کی کچھ زمینیں ہیں ان زمینوں کے اخراجات چاچوؤں کے ساتھ مل کر اٹھاتے ہیں گھر میں گندم انہی زمینوں سے آتی ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(1) مذکورہ صورت میں بھائی اپنی بہن کو زکوۃ دے سکتا ہے بشرطیکہ بہن مستحق زکوٰۃ ہو۔
(2)سال پورا ہونے سے پہلے تھوڑی تھوڑی کر کے بھی زکوۃ دی جا سکتی ہے۔
(3) بہن کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے ،بلکہ بہن کو کسی بھی عنوان سے زکوٰة دے دی جائے اور نیت زکوٰة کی کرلی جائے تو زکوٰة ادا ہوجائے گی۔
المحیط البرہانی (3/218) میں ہے:
في «العيون» : رجل يعول أخته أو أخاه أو عمه، فأراد أن يعطيه الزكاة إن لم يكن فرض عليه القاضي نفقته جاز؛ لأن التمليك من مولاه بصفة القربة يتحقق من كل وجه، فيتحقق ركن الزكاة، وإن كان القاضي فرض عليه نفقته، إن لم يحتسب المؤدى إليه نفقته جاز أيضا، وإن كان يحتسب لا يجوز؛ لأن هذا أداء الواجب بواجب آخر۔
وقال في «الحاوي» : قال أبو بكر الإسكاف: لو دفع الزكاة إلى أخته، وهي في عياله جاز، وكذلك لو فرض الحاكم عليه نفقتها جاز من الزكاة، والنفقة جميعا، قال به، وقيل: لم يجز بعد الفرض.وفي «المنتقى» عن الحسن بن زياد عن أبي حنيفة: رجل فرض عليه القاضي نفقة قرابته، وأعطاه من زكاة ماله جاز.
الدر المختار(3/262) میں ہے:
(ولو عجل ذو نصاب) زكاته (لسنين أو لنصب صح) لوجود السببـ
رد المحتار(3/263) میں ہے:
(قوله: ولو عجل ذو نصاب) قيد بكونه ذا نصاب؛ لأنه لو ملك أقل منه فعجل خمسة عن مائتين ثم تم الحول على مائتين لا يجوز.
الدر المختار (3/222) میں ہے:
(وشرط صحة أدائها نية مقارنة له) أي للأداء۔
رد المحتار (3/222) میں ہے:
(قوله نية) أشار إلى أنه لا اعتبار للتسمية؛ فلو سماها هبة أو قرضا تجزيه في الأصح۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved