• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بہن بھائیوں کا باہمی رضامندی سے وراثت تقسیم کرنا

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم تین بھائی اور تین بہنیں ہیں،ہم سب کے درمیان ایک گھر مشترک تھا جس کی تقسیم تین حصوں پر کی گئی،اورہر بھائی کے ذمے ایک بہن لگا دی گئی مثلاً عمر کے ذمے **،بکر کے ذمے **اور میرے ذمے ***لگا دی گئی،اب میں **کو اس کا حصہ دینا چاہتا ہوں مگر عمر اور بکر بقایا دو بہنوں کو ان کے حصے نہیں دیتے ہیں،اب پوچھنا یہ ہے کہ میں **کو اس کا حصہ دینے سے شرعاً فارغ الذمہ ہو جاؤں گا یا نہیں؟کیا بقایا دو بہنوں کا مجھ پر بقدر حصص حق رجوع ہے یا نہیں؟

تنقیحات:یہ گھر ہمیں وراثت میں  ملا تھا اور تین بھائی اور تین بہنوں کے علاوہ کوئی وارث نہیں،اوراس تقسیم کے وقت سب راضی تھے،اورہر بھائی کو اختیار تھا کہ چاہے تو بہن کو پیسے دے دے یا زمین میں سے حصہ دےدے،اور بہنوں کو اس بات کا علم تھا کہ ان کا حصہ ایک ایک بھائی کے ذمہ لگایا جا رہا ہے۔تمام بہن بھائیوں کے دستخط ذیل میں درج ہیں:

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں آپ **کو اس کا حصہ دے کر شرعاً فارغ الذمہ ہو جائیں گے،باقی بہنوں کو دینا آپ کے ذمے نہیں۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں جب گھر تین بھائیوں میں تقسیم کیا گیا اور ہر بھائی کے ذمے ایک بہن کو اس کا حصہ دینا طے کیا گیا تو ہر بہن کا حصہ کل مکان سے ختم ہو کرصرف اس بھائی کے حصہ میں رہ گیاجس کے ذمے اس کا حصہ دینا طے ہوا تھا،لہذا آپ کے ذمے جس بہن کو حصہ دینا طے ہوا تھا صرف اسی کو حصہ دیناآپ کی ذمہ داری ہے،باقی دو بہنوں کا حصہ آپ کے ذمے نہیں۔

درمختار(9/422)میں ہے:’’(وحكمها ‌تعيين ‌نصيب كل) من الشركاء (على حدة وتشتمل) مطلقا (على) معنى (الإفراز) وهو أخذ عين حقه (و) على معنى (المبادلة) وهو أخذ عوض حقه‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved