- فتوی نمبر: 3-255
- تاریخ: 02 اگست 2010
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
میرے والد***وفات پا چکے ہیں اور اپنے پیچھے مندرجہ ذیل لواحقین چھوڑ گئے ہیں۔ والدہ محترمہ یعنی زوجہ **، فرزندان بقید حیات 3، فرزند مرحوم1، جو کہ والد کی وفات سے چند سال پہلے وفات پاچکے ہیں۔ دختران تمام شادی شدہ 5۔
جناب عالی والد محترم وراثت میں ایک مکان چھوڑ گئے ہیں جو کہ وارثوں کی کل وراثت ہے اور ابھی فروخت نہیں کیا گیا۔ نیز قیمت کا تعین بھی نہیں ہوسکا اور اس مکان میں ہم دو بھائی مقیم ہیں۔ گذارش یہ ہے کہ ان تمام لواحقین کی وراثت از روئے شرع بتادیجئے اور مندرجہ باتوں کی وضاحت فرما دیجئے:
الف: جو بھائی والد کی وفات سے پہلے دار فانی سے جا چکے ہیں کیا وراثت میں ان کا یا ان کے بیوی بچوں کا حق ہوگا یا نہیں؟ اور ہوگا تو کتنا ؟
ب: اگر کوئی اپنی مرضی سے تمام بھائیوں یا ایک بھائی کے حق میں اپنی وراثت سے دستبردار ہوناچاہتی ہو تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے۔ یعنی اس کا طریقہ کیا ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں کل مال کے 88 حصے کر کے ان میں سے 11 حصے ان کی بیوی کو اور 14۔ 14 ہر بیٹے کو اور 7۔7 حصے ہر بیٹی کو ملیں گے۔ صورت تقسیم یہ ہے :
8×11=88
بیوہ 3 بیٹے 5 بیٹیاں
1×11 7×11
11 77
11 14+14+14 7+7+7+7+7
2۔ جو بیٹا والد سے پہلے فوت ہوچکا ہے ا س کی اولاد کو کچھ نہیں ملے گا۔ البتہ اگرسب وارث اپنی رضا مندی سے کچھ دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں۔
3۔ بہنوں کا حصہ ان کو دے دیں، اس کے بعد اگر وہ کسی کو دینا چاہیں تو دی سکتی ہیں۔
ان کو دیے بغیر دستبرداری درست نہ ہوگی۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved