- فتوی نمبر: 12-198
- تاریخ: 25 جولائی 2018
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
ورثاء میں ہم پانچ بھائی اور تین بہنیں ،تمام شادی شدہ وخود مختار ہیں۔ہمارے والد محترم فیاض الحق کا انتقال 2014ـ08ـ12کو ہوا ،انتقال سے قبل والد صاحب دس گیارہ ماہ صاحب فراش رہے ان دس گیارہ ماہ میں ان کی حالت چند مرتبہ انتہائی مایوس کن رہی ان کے پاس کچھ رقم بینک میں پڑی تھی انہوں نے اپنی حالت کے سبب مناسب سمجھا کہ رقم1,50,000+21,07,873کل22,57,873روپے اپنے ہاتھ سے بچوں میں تقسیم کردوں،انہوں نے ایک تہائی7,52,624ایک مدرسہ کو اور بقیہ رقم 15,05,624روپے اپنے مذکورہ بچوں میں درج ذیل تناسب سے تقسیم کر دیئے :
فی لڑکا:2,31,576 فی لڑکی:1,15,788
بعد از تقسیم کچھ دنوں بعد ایک بیٹی نے نکتہ اٹھایا کہ اگر زندگی میں تقسیم کی جائے تو لڑکے اور لڑکی کو برابر حصہ دیا جاتا ہے جس پر والد صاحب نے فتوی لیا( نقول لف ہے)جس میں کہا گیا کہ آپ جس طریق پر تقسیم کرچکے ہیں وہ بھی ٹھیک ہے جبکہ برابرتقسیم کو احسن کہا گیا ہے۔بہر حال والد صاحب نے احسن کو اختیار کرنے کا ارادہ کیا ۔والد صاحب کا ذریعہ آمدن ماہانہ پینشن تھی ۔انہوں نے تینوںبیٹیوں کو مزید فی کس 50,000ادا کردیے اور بقیہ رہ جانے والی رقم 364،97،1=3×788،65کے بارے میں وصیت کی کہ اگر میں زندہ رہا تو بقایا رقم بھی بیٹیوں کو ادا کردوں گا (انہوں نے ترکہ میں ایک عدد مکان دس مرلہ چھوڑا ہے )اوراگر نہ کرسکا تو جو بھی مکان کا حساب کرے وہ انہیں ادا کردے اگر ادا نہ کی جائے تو بیٹیاں مجھے معاف کردیں ۔وقت نے انہیں مزید ادائیگی کی مہلت نہ دی ۔سوال یہ ہے کہ والد صاحب کی بیٹیوں کو بقیہ رقم دینے کے بارے میں وصیت پر عملدرآمد کے لیے شرعی احکام کیا ہیں ؟اور اس کی ترتیب کیا ہو گی؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
والد کی بیٹیوں کے لیے کی ہوئی وصیت چونکہ ورثاء سے متعلق ہے اس لیے اسے پورا کرنا ضروری نہیں۔ البتہ اگر دیگر ورثاء اپنی رضامندی سے اپنے والد کی خواہش کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس وصیت کو پورا کرنا چاہیں تو وہ کرسکتے ہیں
© Copyright 2024, All Rights Reserved