• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیٹے کی بیوی سے نکاح کرنے کا حکم

استفتاء

مفتی صاحب سوال یہ ہے کہ سسر اپنے بیٹے کے فوت ہونے کے بعدیا  بیٹے کے اپنی بیوی کوطلاق دینے  کے بعد   اس کی بیوی یعنی اپنی بہو سے نکاح کرسکتا ہے؟ ایک آدمی کسی مولوی صاحب کے بارے میں کہتا ہے کہ فلاں مولانا صاحب کہتے ہیں کہ اگر کسی اور رشتے کی بنیاد پر  حرمت ثابت نہ ہو  تو سسر اپنی بہو سے عدت کے بعد نکاح کرسکتا ہے۔مدلل جواب عنایت فرماکر عنداللہ ماجور ہوں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

بیٹے کی بیوی (بہو) آدمی  پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوتی  ہے،اس لیے بیٹے نے اگر اپنی بیوی کو طلاق دے دی یا بیٹا فوت ہوگیاتو والد کے لیے  اس کی  بیوی سے نکاح کرنا  جائز نہیں،نہ  عدت سے پہلے اور نہ ہی عدت کے بعد۔

چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

و حلائل أبنائكم الذين من اصلابكم.

ترجمہ:نیز  تمہارے صلبی بیٹوں کی بیویاں بھی تم پر حرام ہیں۔

در مختار مع رد المحتار(4/110)میں ہے:

(و) حرم بالمصاهرة (‌بنت ‌زوجته ‌الموطوءة وأم زوجته) وجداتها مطلقا بمجرد العقد الصحيح (وإن لم توطأ) الزوجة………………(وزوجة أصله وفرعه مطلقا) ولو بعيدا دخل بها أو لا.

(قوله: وزوجة أصله وفرعه) لقوله تعالى {ولا تنكحوا ما نكح آباؤكم} [النساء: 22] وقوله تعالى {وحلائل أبنائكم الذين من أصلابكم} [النساء: 23] والحليلة الزوجة وأما حرمة الموطوءة بغير عقد فبدليل آخر وذكرالأصلاب لإسقاط حليلة الابن المتبنى لا لإحلال حليلة الابن رضاعا فإنها تحرم كالنسب بحر وغيره.

(قوله: ولو بعيدا إلخ) بيان للإطلاق أي ولو كان الأصل أو الفرع بعيدا كالجد، وإن علا وابن الابن، وإن سفل. وتحرم زوجة الأصل والفرع بمجرد العقد دخل بها أو لا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved