- فتوی نمبر: 10-118
- تاریخ: 08 جولائی 2017
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
ہم پانچ بہن بھائی ہیں، ہمارے والد صاحب نے 2002 میں کیولری گراؤنڈ میں گھر بنایا، 2008ء میں ان کو پینشن کی ایک معقول رقم ملی، جس میں سے 5 لاکھ مجھے، 5 لاکھ دوسری بہن کو اور تین لاکھ تیسری بہن کو دیا۔ ہمیں یہ رقم دینے کا مقصد ان کا بیٹوں کا بوجھ ہلکا کرنا تھا کہ جب بھی جائیداد تقسیم ہو اس میں سے یہ رقم منفی کر دی جائے، ہمارے والد صاحب نے ہمیں کہا کہ اس رقم کا کوئی پلاٹ لے لو تاکہ یہ رقم محفوظ ہو جائے چنانچہ ہم دو بہنوں کو جو پانچ پانچ لاکھ روپے دیے گئے اس میں ہم نے سوا چار لاکھ اور ملا کر پبلکن سوسائٹی میں اپنے باپ کی رضا مندی سے ایک کینال کا پلاٹ خرید لیا جس کی ٹوٹل قیمت سوا چودہ لاکھ تھی۔ اور اس پلاٹ کے بارے میں والد صاحب کو بھی بتا دیا ۔ یہاں یہ بتانا میں ضروری سمجھتی ہوں کہ ہم تین بہنوں کی بیٹیاں ہیں بیٹا نہیں، ان کا مقصد بھی یہی تھا کہ یہ پلاٹ آگے ہماری بیٹیوں کے کام آئے گا، اگست 2010 میں میرے والد صاحب کا انتقال ہوا۔ لیکن انہوں نے اپنی زندگی میں ہی *** مسجد کے حافظ صاحب سے اس رقم کے بارے میں پوچھا تو ان کا جواب تھا کہ یہ ہبہ ہو گئی، اس بات کے گواہ ان کے دو قریبی دوست بھی ہیں لیکن باپ ہونے کے ناطے انہوں نے ہم سے اس رقم کی نہ تو واپسی کا مطالبہ کیا اور نہ ہی یا اس رقم کے حوالے سے دوبارہ کبھی کوئی بات کی، اب 2015 میں والدہ کی وفات کے بعد 2017ء میں والد صاحب کا کیولری گراؤنڈ والا مکان فروخت ہو رہا ہے۔ جس کی کل قیمت 2 کروڑ 30 لاکھ روپے ہے۔ باپ کی بیماری پر تقریبا ً 12 لاکھ خرچ ہوئے، جو کہ بڑے بھائی جو صاحب حیثیت تھے انہوں نے خرچ کیے، لیکن اب وہ 12 لاکھ کی واپسی کا تقاضا کر رہے ہیں۔ اور ہمارے پلاٹ کی قیمت کو موجودہ قیمت کے ساتھ والد صاحب کے ترکہ میں شمار کر رہے ہیں یعنی وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اب والد صاحب کے مکان کی جو کل قیمت ہے یعنی دو کروڑ تیس لاکھ روپے، اس میں 70 لاکھ گویا کہ تم نے لے لیا ہے لہذا 70 لاکھ منفی کر کے باقی جو تمہارا حصہ بنے گا وہ میں تمہیں دے دوں گا۔ میرے کچھ سوال ہیں:
1۔ کیا والد صاحب کی بیماری پر لگائی ہوئی رقم میں سب بہن بھائی شریک ہوں گے اور وہ کل قیمت میں سے نکالی جائے گی اور بعد میں وراثت کی تقسیم ہو گی؟ بھائی کا کہنا ہے کہ میں نے واپس لینے کی نیت سے خرچہ کیا تھا۔
2۔ کیا ہم بہنوں کو دی گئی رقم جو کہ 13 لاکھ بنتی ہے وہ ہبہ شمار ہو گی یا والد صاحب کا ترکہ شمار ہو گی؟
3۔ ہمارے پلاٹ کی موجودہ قیمت جو کہ تقریباً 70 لاکھ ہےوہ کس مد میں شمار ہو گی؟
4۔ تیسری بہن کو جب تین لاکھ روپے والد نے دیے تو اس کا گھر بن رہا تھا یہ روپے اس نے اس گھر کے اوپر خرچ کیے، بھائی کا کہنا ہے، یہ تین لاکھ کی ویلیو بھی اب اس مکان کی موجودہ قیمت کے مطابق ہو گی۔
5۔ کیا شریعت کی رُو سے ہم تینوں بہنیں والد کی طرف سے اپنی زندگی میں دی گئی رقم کو وراثت کے حصے سے کٹوانے کی پابند ہیں؟ اگر نہیں تو ہم بہنیں یہ رقم اپنے حصے سے واپس دینے کو تیار ہیں۔
وراثت کی تقسیم کے اس عمل کو ہم باہمی رضا مندی سے طے کرنا چاہتے ہیں تاکہ کوئی فرد بھی اس دنیا میں یا آخرت میں کسی کا دین دار نہ ہو۔
6۔ وہ پلاٹ بیٹیوں کے مستقبل کے لیے لیا گیا تھا۔ اب اگر وہ گھر بنانے کے لیے فروخت کیا جائے تو کیا اس پر زکوٰۃ واجب ہو گی پچھلے سالوں کی؟ برائے مہربانی اس مسئلہ پر ہماری رہنمائی فرما کر شکریہ کا موقع عطا فرمائیں۔
وضاحت: (1)*** مسجد کے حافظ صاحب سے پوچھی گئی زبانی بات کا بھائی اعتبار نہیں کر رہے وہ کہتے ہیں کہ تحریری فتویٰ لاؤ۔
2۔ والد صاحب نے رقم صرف بیٹیوں کو دی تھی۔ بیٹوں کو کچھ نہ دیا تھا۔
سوال نمبر 6 سے متعلق وضاحت مطلوب ہے: کہ کیا یہ پلاٹ خریدتےوقت اسے آگے فروخت کرنے کی نیت تھی یا نہیں؟
جواب: آگے فروخت کر کے بچیوں کی شادی کرنے کی نیت سے لیا گیا تھا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ والد صاحب کی بیماری پر لگائی گئی رقم چونکہ واپس لینے کی نیت سے خرچ کی گئی تھی اس لیے والد صاحب کے مکان کی قیمت سے یہ رقم نکال کر باقی رقم وراثت میں تقسیم ہو گی۔
5۔4۔3۔2۔ یہ رقم اصولاً تو ہبہ ہی شمار ہو گی۔ اور وراثت میں سے منفی نہ ہو گی لیکن ایسا کرنے سے ایک تو والد صاحب کا مقصد فوت ہو گا کیونکہ والد کا مقصد محض ہبہ نہیں تھا بلکہ اصل مقصد یہ تھا کہ جب بھی جائیداد تقسیم ہو اس میں سے یہ رقم منفی کر دی جائے۔ اور دوسرے والد کی جانب سے بیٹے کے ساتھ زیادتی ہو گی کہ والد نے بیٹیوں کو تو کچھ رقم دیدی اور بیٹے کو کچھ نہ دی۔
لہذا اگر آپ بہنیں یہ چاہتیں ہیں کہ والد صاحب کا مقصد بھی پورا ہو جائے اور بیٹے کو نہ دے کر جو ان سے کوتاہی ہوئی اس کی تلافی بھی ہو جائے تو بہنوں کے لیے بہتر یہ ہے کہ بھائی کے کہے کے مطابق اس دی گئی رقم کو موجودہ ویلیو کے مطابق وراثت میں سے منفی کر کے اپنا حصہ لیں۔
6۔ مذکورہ پلاٹ پر پچھلے سالوں کی زکوٰۃ واجب ہو گی، البتہ آپ کو اختیار ہے کہ پچھلے سالوں کی زکوٰۃ موجودہ قیمت کے لحاظ سے ادا کریں یا ہر سال پلاٹ کی جو مالیت رہی اس کے لحاظ سے ہر سال کی زکوٰۃ ادا کریں۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم [1]
[1] ۔ 1۔ جب بھائی نے والد صاحب پر واپس لینے کی نیت سے خرچہ کیا تو وہ تقسیم سے قبل ان کے ترکہ میں سے اپنی رقم نکال سکتا ہے۔
2۔ والد صاحب نے اپنی زندگی میں جو کچھ بیٹیوں کی ملکیت دیا اور حوالہ بھی کر دیا تو وہ ہبہ ہو کر بیٹیوں کی ملکیت ہو گیا، والد صاحب کا ترکہ نہیں رہا۔
لیکن جب بیٹیوں کو معلوم ہے کہ اس طرح ان کی ملکیت میں دینے سے والد صاحب کی غرض محض ہبہ کرنا نہیں تھا بلکہ اپنی وفات کے بعد بیٹوں کا بوجھ ہلکا کرنا تھا، جس کا صحیح شرعی طریقہ وہ اپنی لا علمی کی وجہ سے اختیار نہ کر سکے۔ لہذا بیٹیوں کو چاہیے کہ وہ والد صاحب کی خواہش کے مطابق اپنے بھائیوں کا بوجھ ہلکا کرنے میں جس قدر ممکن ہو سکے تعاون کر لیں۔ اور بھائیوں کو بھی چاہیے کہ ہبہ مکمل ہو جانے کی وجہ سے اپنی بہنوں پر زبردستی نہ کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved