• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیٹیوں کا حصہ

استفتاء

راقم کے پانچ بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔ راقم کو وراثت میں ایک مکان ملا تھا۔ اس وقت راقم کا اپنا کاروبار تھا اور بیٹے کاروبار میں شریک تھے، بعد میں سب کے کاروبار الگ ہوگئے لیکن تمام بیٹے کمائی مکمل طور پر راقم کو دیتے رہے۔ کھانا پینا بھی اکٹھا تھا، راقم نے اس مشترکہ کمائی سے کچھ بچوں کی شادیاں کیں، حج کیا، اور اس مشترکہ کمائی سے تین پلاٹ خریدے جن میں سے ہر ایک ایک کنال پر مشتمل تھا۔ قانونی مجبوری کی وجہ سےیہ تینوں پلاٹ تین بیٹوں کے نام سے خریدے تھے، بعد میں راقم نے آبائی مکان فروخت کیا اس کی رقم سے ایک پلاٹ اور خرید لیا اور اسی رقم سے پہلے خریدے گئے تین پلاٹوں میں سے تھوڑی سی جگہ میں چند کمرے بغرض رہائش بنا کر وہاں منتقل ہو ئے جو رقم بچی وہ کاروبار میں لگا دی۔ نئے مکان میں بچوں کا کھانا پینا الگ کر دیا۔

چند سال بعد اکٹھے خریدے گئے تین پلاٹوں میں سے ایک پلاٹ فروخت کر کے باقی بچوں کی شادیاں کر دیں۔ اس طرح سب بچے شادی شدہ ہوئے اور راقم اپنے فرض سے فارغ ہوگیا۔ کچھ عرصہ پہلے راقم نےا کٹھے بنے ہوئے دو پلاٹوں ( جن میں سے کچھ حصے پر تعمیر ہوئی تھی اور کچھ خالی پڑا تھا) کو پانچ بیٹوں میں تقسیم کر دیا۔ راقم کا خیال تھا کہ جو پلاٹ الگ سے خریدا ہوا ہے اس کو بیٹیوں میں تقسیم کر دے گا جو دو پلاٹ بیٹوں میں تقسیم کیے تھے وہ اکٹھے بنے ہوئے ہیں درمیان میں کوئی دیوار وغیرہ نہیں۔ لیکن یہ تقسیم اس طرح ہوئی کہ دو بیٹوں کے حصے میں غیر تعمیر شدہ حصہ آیا اور انہوں نے اپنی جگہ پر قبضہ بھی کر لیا۔ لیکن یہ دو بیٹے دوسرے دو بیٹوں کے حصے میں بنے ہوئے کمروں میں رہ رہے ہیں کیونکہ تقسیم کے وقت یہ طے کر دیا تھا کہ جن بیٹوں کو تعمیر شدہ حصہ ملا ہے وہ اپنے ان بھائیوں کو اس وقت کے حساب سے کمرہ تعمیر کرنے کا خرچ دیں گے تو یہ بھائی جگہ خالی کریں گے اور اپنے خالی حصہ میں جا کر اپنے پیسے سے کمرہ وغیرہ تعمیر کر لیں گے۔ صرف ایک بیٹا ایسا تھا جس کے بنے ہوئے حصے میں کوئی بھائی نہیں رہ رہا تھا لیکن اس کے بنے ہوئے حصے میں ایک کمرے میں والد صاحب نے اپنی مشینیں لگائی ہوئی ہیں جن پر وہ کام کرتے ہیں۔

اب آکر وہ خالی پلاٹ جو علیحدہ سے خریدا تھا اور جس میں سے بیٹیوں کا حصہ نکالنے کی نیت کی تھی کارپوریشن کی طرف سے منسوخ ہوگیا اس کی گورنمنٹ نے نیلامی کردی اس پلاٹ سے راقم کو کچھ نہیں ملے گا۔ راقم نے تمام بیٹوں سے ان کے حصہ واپس لینے کی بات کی تاکہ وہ دو پلاٹوں کو از سر نو تقسیم کیا جاسکے تو کیا راقم کو ایسا کرنے کا اختیار ہے؟ نیز تمام بچوں کو راقم اپنی زندگی میں حصے تقسیم کرنا چاہتا ہے کیونکہ پلاٹ بیٹوں کے نام سے خریدے گئے ہیں بعد میں شرعی طور پر ( قانونی مجبوریوں کی وجہ سے) تقسیم نہیں ہوسکے گی تو کیا زندگی میں راقم کے لیے شرعی تناسب سے تقسیم کرنا ضروری ہے یا کسی بھی تناسب سے تقسیم کرسکتا ہے؟ نیز اب تقسیم صرف دو پلاٹوں کوکرنا ہے یا پرانے فروخت شدہ مکان کی قیمت بھی شامل کریں گے؟ اگر بیٹے راقم کو تقسیم شدہ حصے واپس کرنے پر راضی نہ ہوں تو کیا ان کی عدم رضا کا اعتبار ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

بیٹوں سے بات کریں کہ وہ کچھ حصہ زمین کا دیدیں، اگر زمین نہ دیں تو کچھ روپے دیدیں علاوہ ازیں کیا سائل کی ملکیت میں اس وقت کوئی رقم ہے یا فالتو قابل فروخت چیزیں ہیں؟ غرض سب مل کر لڑکیوں کو بھی کچھ دے دیں۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلمھ

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved