- فتوی نمبر: 33-26
- تاریخ: 09 اپریل 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وصیت کے احکام
استفتاء
میرے شوہر کا انتقال 2014 میں ہوا، اس وقت سے ان کی جائیداد تقسیم نہیں کی گئی ، ان کے انتقال کے وقت ان کے ورثاء میں ،میں یعنی (1) زوجہ (2) پانچ بیٹیاں(3) تین بھائی اور(4) ایک بہن زندہ تھے۔ میرے شوہر زندگی میں کہا کرتے تھے کہ جو کچھ میں کماتا ہوں اور جو میری جائیداد ہے وہ سب میری بیٹیوں کا ہے اس میں کسی اور کا کوئی حصہ نہیں ہے۔
نیز ان پر زندگی میں حج فرض ہوچکا تھا لیکن وہ زندگی میں حج نہیں کرسکے اور نہ ہی مرتے وقت اس کی کوئی وصیت کی تھی کہ میرے مال سے حج ادا کروادیا جائے۔اب سوال یہ ہے کہ :
1۔ان کی جائیداد صرف میرے اور میری بیٹیوں کے درمیان تقسیم ہوگی یا دیگر ورثاء کا بھی ان کی جائیداد میں حصہ بنتا ہے؟
2۔ان کا حج اگر ادا کرنا ہو تو اس کی کیا صورت ہوگی؟ ان کی جائیداد سے اگر حج کروادیا جائے تو ان کے حج کا فرض ان کےذمہ سے ساقط ہوجائے گا؟
وضاحت مطلوب ہے: (1) شوہر کے والدین حیات ہیں یا فوت ہوچکے ہیں؟ اگر فوت ہوچکے ہیں تو کب فوت ہوئے، پہلے یا بعد میں؟(2) جب مرحوم نے کہا کہ سب کچھ میری بیٹیوں کاہے تو بیٹیاں بالغ تھیں یا نابالغ؟
جواب وضاحت:(1) شوہر کے والدین شوہر کی وفات سے پہلے فوت ہوچکے تھے۔(2) ایک بیٹی نابالغ تھی، باقی بالغ تھیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔مذکورہ صورت میں آپ کے شوہر کی جائیداد (منقولی غیر منقولی) میں شوہر کی بہن اور اس کے بھائیوں کا بھی حصہ بنتا ہے تاہم اگر وہ اپنی خوشی سے اپنا حصہ آپ ماں بیٹیوں کو یا صرف آپ کی بیٹیوں کو ہدیہ کرنا چاہیں تو وہ یہ بھی کرسکتے ہیں۔
تقسیم کی صورت یہ ہوگی کہ کل جائیداد کے 840 حصے کیے جائیں گے جن میں سے 105 حصے (12.5فیصد) بیوی کو، 112 حصے (13.33 فیصد) ہر بیٹی کو،50 حصے (5.95 فیصد) ہر ایک بھائی کو اور 25 حصے (2.97فیصد) بہن کو ملیں گے۔
صورت تقسیم درج ذیل ہے:
24×35=840
بیوی | 5 بیٹیاں | 3بھائی | 1بہن |
ثمن | ثلثان | عصبہ | |
3 | 16 | 5 | |
3×35 | 16×35 | 5×35 | |
105 | 560 | 175 | |
105 | 112+112+112+112+112 | 50+50+50 | 25 |
توجیہ:والد کا صرف زبانی کہنا کہ "جو کچھ میں کماتا ہوں اور جو میری جائیداد ہے وہ سب میری بیٹیوں کی ہے” ہبہ (ہدیہ) کے الفاظ نہیں ہیں کیونکہ اس طرح کے الفاظ سے مراد یہ ہوتا ہے کہ میرے مرنے کے بعد سب کچھ میری اولاد کو بطور وراثت ملے گا ۔
بدائع الصنائع(6/115) میں ہے:
فالإيجاب هو أن يقول الواهب وهبت هذا الشيء لك أو ملكته منك أو جعلته لك أو هو لك أو أعطيته أو نحلته أو أهديته إليك أو أطعمتك هذا الطعام أو حملتك على هذه الدابة ونوى به الهبة
ہندیہ (4/375) میں ہے:
وأما الألفاظ التي تقع بها الهبة فأنواع ثلاثة: نوع تقع به الهبة وضعا، ونوع تقع به الهبة كناية وعرفا، ونوع يحتمل الهبة والعارية مستويا. أما الأول فكقوله: وهبت هذا الشيء لك، أو ملكته لك، أو جعلته لك، أو هذا لك، أو أعطيتك، أو نحلتك هذا، فهذا كله هبة، وأما الثاني فكقوله: كسوتك هذا الثوب، أو أعمرتك هذه الدار فهو هبة، كذا لو قال: هذه الدار لك عمري، أو عمرك، أو حياتي أو حياتك، فإذا مت فهو رد علي، جازت الهبة وبطل الشرط، وأما الثالث فكقوله: هذه الدار لك رقبى أو لك حبس، ودفعها إليه فهي عارية عندهما وعند أبي يوسف – رحمه الله تعالى – هي هبة، كذا في محيط السرخسي
ہندیہ (4/ 377) میں ہے:
«ولا يتم حكم الهبة إلا مقبوضة ويستوي فيه الأجنبي والولد إذا كان بالغا، هكذا في المحيط»
ردالمحتار (5/690) میں ہے:
(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به) والاصل أن الموهوب إن مشغولا بملك الواهب منع تمامها
2۔مذکورہ صورت میں ترکہ سے حج بدل کی ادائیگی لازم نہیں ہاں اگر تمام ورثاء عاقل، بالغ ہوں یا جو عاقل بالغ ہوں وہ اپنی رضامندی سے ترکہ سے حج بدل کروانا چاہیں تو کرواسکتے ہیں اور کروانے کی صورت میں حج کا فرض ان کے ذمہ سے ساقط ہوجائے گا۔
ہندیہ (1/257) میں ہے:
إذا أراد أن يحج رجلا عن نفسه أن يحج رجلا قد حج عن نفسه، ومع هذا لو أحج رجلا لم يحج عن نفسه حجة الإسلام يجوز عندنا….. ولو أحج عنه امرأة أو عبدا أو أمة بإذن السيد جاز ويكره هكذا في محيط السرخسي
ردالمحتار(4/19) میں ہے:
(وإن لم يوص به) أي بالإحجاج (فتبرع عنه الوارث) وكذا من هم أهل التبرع (فحج) أي الوارث ونحوه (بنفسه) أي عنه (أو أحج عنه غيره جاز) والمعنى جاز عن حجة الإسلام إن شاء الله تعالى كما قاله في الكبير
ہندیہ (1/257) میں ہے:
من عليه الحج إذا مات قبل أدائه فإن مات عن غير وصية يأثم بلا خلاف وإن أحب الوارث أن يحج عنه حج وأرجو أن يجزئه ذلك إن شاء الله تعالى، كذا ذكر أبو حنيفة رحمه الله تعالى
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved