- فتوی نمبر: 33-317
- تاریخ: 22 جولائی 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
میرے پانچ بیٹے تھے جن میں سے سب سے بڑے بیٹے کا اگست 2021ء میں انتقال ہوگیا، اس کا ایک بیٹا، دو بیٹیاں اور بیوی ہے۔ میں نے تاحال اپنی جائیداد اپنے بچوں میں تقسیم نہیں کی۔
آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ میری جائیداد میں میرے مرحوم بیٹے کے بچوں کا کتنا حصہ ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
جب تک آپ حیات ہیں اس وقت تک تو آپ کی جائیدا میں کسی بیٹے، بیٹی یا پوتے، پوتی کا کوئی حصہ نہیں البتہ اگر آپ کی وفات کے وقت آپ کا کوئی ایک بیٹا یا زیادہ بیٹے زندہ ہوئے تو آپ کی وراثت میں آپ کے پوتوں کا شرعاً کوئی حصہ نہ ہوگا لیکن اگر آپ اپنے مرحوم بیٹے کے بچوں کو اپنی زندگی میں اپنی صوابدید کے مطابق کچھ دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں بلکہ بہتر ہے کہ جو حصہ آپ کی وفات کے بعد آپ کے بیٹے کا بنتا وہ حصہ اپنی زندگی میں اس بیٹے کے، بچوں میں تقسیم کردیں یا اگر وہ حصہ آپ کی کل وراثت کا ایک تہائی یا اس سے کم ہے تو اس کی مرحوم بیٹے کے بچوں کے لیے وصیت کردیں۔
رد المحتار مع در مختار (6/758) میں ہے:
والمراد بالفرائض السهام المقدرة … وشروطه: ثلاثة: موت مورث حقيقة، أو حكما كمفقود، أو تقديرا كجنين فيه غرة ووجود وارثه عند موته حيا حقيقة أو تقديرا كالحمل
بخاری شریف (2/997) میں ہے:
الحقوا الفرائض باهلها فما بقي فهو لاولى رجل ذكر.
ترجمہ: فرائض (یعنی قرآن کے مقرر کردہ حصے) اہل فرائض کو دے دو پھر جو کچھ بچے اس شخص (یا اشخاص) کا حصہ ہے جو مرد ہو اور رشتے میں میت کے قریب تر ہو۔
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق (6/ 234) میں ہے:
قال رحمه الله (ويحجب بالابن) أي ولد الابن يحجب بالابن ذكورهم وإناثهم فيه سواء لأن الابن أقرب، وهو عصبة فلا يرثون معه بالعصوبة، وكذا بالفرض لأن بنات الابن يدلين به فلا يرثن مع أصلهن.
مجمع الانہر شرح ملتقى الأبحر (2/ 756) میں ہے:
يحجب الأبعد بالأقرب، و) يحجب (ذو القرابة) الواحدة (بذي القرابتين ومن يدلي بشخص لا يرث معه) أي مع وجود ذلك الشخص كابن الابن مثلا فإنه لا يرث مع الابن»
کفایت المفتی (8/292) میں ہے:
سوال: زید کے دولڑکے تھے بنام عمرو، بکر، عمر و زید کی زندگی میں فوت ہوگیا اور ایک شیر خوار بچہ بنام عبداللہ چھوڑا پانچ سال کے بعد خود زید فوت ہوگیا تو زید کی جائیداد میں عبداللہ کو حصہ وراثت ملے گا یا نہیں؟
جواب: جبکہ کوئی متوفی اپنا لڑکا اور پوتا چھوڑے تو متوفی کی میراث لڑکے کو ملے گی اور پوتا محروم رہے گا کیونکہ وراثت میں قرابت قریبہ قرابت بعیدہ کو محروم کردیتی ہے۔ یہی اصول اس صورت میں بھی جاری ہے کہ بیٹوں کے سامنے پوتے محروم ہوں گے خواہ ان پوتوں کے باپ زندہ ہوں یا وفات پاچکے ہوں ۔
جواہر الفقہ (7/538) میں ہے:
شریعت کے ضابطہ وراثت میں دادا کو صرف حق ہی نہیں بلکہ قرآن و حدیث نے جابجا اس کی ترغیب دی ہے کہ ایسے غریب رشتہ داروں کا خیال رکھے، جو ضابطہ سے وراثت میں حصہ نہیں پائیں گے، ان کو اپنی زندگی اور صحت میں ان کی ضرورت و حاجت کے پیش نظر جتنا چاہے اپنے ہاتھ سے دے سکتا ہے، یہاں تک کہ اگر وہ چاہے تو سب بیٹوں سے زیادہ ان پوتوں پوتیوں کو دے سکتا ہے ، شرط صرف یہ ہے کہ اس دینے میں ان کی حاجت و مصلحت پیش نظر ہو، دوسرے وارثوں سے ضد اور ان کو محروم کرنے کا قصد نہ ہو، اور اپنی زندگی میں نہیں دیا تو مرنے کے بعد کے لئے ایک تہائی حصہ کی حد تک وصیت کر سکتا ہے، اب اگر قرآنی ترغیبات اور خاندانی قرابت کے جذبات اور دنیا کی شرم و حیا سبھی کو بالائے طاق رکھ کر نہ ان پر دادا نے رحم کھایا، اور نہ چاتاؤں نے جس کی وجہ سے یہ بیچارے کسی مصیبت میں گرفتار ہوئے، تو یہ ایک سماوی آفت ہو گی، جس سے کوئی کسی کو نہیں بچا سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved