- فتوی نمبر: 1-221
- تاریخ: 23 جون 2007
- عنوانات: مالی معاملات > شرکت کا بیان > مشترکہ خاندانی نظام
استفتاء
ہم چار بھائی اپنے والد کے ساتھ ہنگو میں رہتے ہیں۔ بڑے بھائی کو والد صاحب نے کاروبار کے لیے رقم دی۔ وہ میڈیکل سٹور کر رہے ہیں۔ دوسرے نمبر پر میں ہوں۔ میں سوئی گیس کا ملازم ہوں۔ تیسرا آرمی میں ہے۔ اور سب سے چھوٹا علم حاصل کر رہا ہے۔ 2003ء میں والدہ صاحبہ فوت ہوئی۔ اور 2004ء میں میں نوکری کے سلسلے میں کوہاٹ اپنے بیوی بچوں کےساتھ آیا۔ 2005ء میں گورنمنٹ کی طرف سے اسلام آباد میں پلاٹوں کا ایڈورٹائیزمنٹ ہوا۔ اس میں میں نے دو پلاٹوں کے لیے ایک والد صاحب کے نام پر اور دوسرا تیسرے بھائی کے نام پر دو درخواستیں جمع کیں۔ اس میں پلاٹ تیسرے نمبر بھائی جو کہ آرمی کا ملازم ہے کے نام پر نکلا۔ پلاٹ کی تمام قسطیں میں نے خود جمع کیں۔ بھائیوں نے تعاون کا بھی کہا مگر میں نے یہ کہہ دیا کہ یہ تمام رقم میں خود ادا کروں گا۔ اور یہ تمام رقم میں نے تقریباً قرض لے کر ادا کردی۔درخواستیں اس لیے والد صاحب اور بھائی کے نام پر جمع کیں کیونکہ وہ آرمی کے ملازم ہیں اور میں آرمی کا ملازم نہیں تھا۔ اب سب بھائی حضرات فرما رہے ہیں کہ اس پلاٹ میں ان کا شرعی حق ہے۔ تو اب مفتی حضرات سے مذکورہ دو امور پر فتویٰ مطلوب ہے۔ کیا اس پلاٹ میں بھائیوں کاکوئی شرعی حق ہے یا نہیں؟ دوم یہ کہ بڑے بھائی کا دکان جو کہ میڈیکل سٹور ہے اس میں ہم بھائیوں کا شریعت میں کوئی حق بنتا ہے یا نہیں؟ جبکہ والد صاحب خود فرماتے ہے کہ وہ رقم جو کاروبار کے سلسلے میں دی تھی اس کو ہبہ نہیں کی ہے۔ پلاٹ کے ملنے سے پہلے ہم بھائیوں کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہوا کہ حصہ ہوگا یا نہیں ہوگا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ مذکورہ پلاٹ سائل کا ہے جس نے اس کی قیمت ادا کی ہے۔ دوسرے بھائیوں کے محض نام پر خریدنے سے ان کا حصہ نہیں بنتا۔ لیکن سائل پر لازم تھا کہ وہ معاملہ کو اپنے بھائیوں پر پہلے ہی واضح کر دیتا۔
2۔ واضح کیجیے کہ باپ نے اگر ہبہ کے طور پر رقم نہیں دی تھی تو کس لیے دی تھی۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved