- فتوی نمبر: 4-11
- تاریخ: 07 مئی 2011
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
ہمارے ہاں ادھیارے پر جانور دیتے ہیں جس کی ایک صورت تو یہ ہوتی ہے کہ ایک شخص نے مثلاً بھینس خرید کر دوسرے شخص کو دی کہ اس کی دیکھ بھال تمہارے ذمے ہے، دودھ بھی تمہارا ہے البتہ اس کے پھل میرے ہوں گے۔ اور اگر اس بھینس کو بیچنا پڑا تو اس کی قیمت کو آپس میں آدھا آدھا تقسیم کر لیں گے۔ دوسری صورت یوں ہوتی ہے کہ اس کے پھل بھی آدھے آدھے تقسیم ہوں اور بیچنے کی صورت اصل رقم جو مالک نے خرید کے وقت ادا کی تھی وہ تو مالک ہی کو ملے گی البتہ اس سے زائد جو نفع ہوگا وہ باہم تقسیم کر لیا جائے گا۔ کیا اس طرح ادھیارے پر دینا درست ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
بھینس ادھیار ے پر دینے کی سوال میں مذکورہ صورت تو جائز نہیں البتہ اس کا جائز طریقہ یہ ہے کہ بھینس جس کو ادھیارے پر دینی ہو تو اس شخص کو آدھی بھینس تھوڑی سی رقم پر بیچ دی جائے جس کی وجہ سے دونوں شریک بھینس اور اس کے پھلوں میں آدھ آدھ کے شریک ہوجائیں گے۔
و شرطها ( أي الإجارة ) كون الأجرة و المنفعة معلومتين . ( در مختار: 6/ 5 )
دفع بقرة إلى رجل على أن يعلفها و ما يكون من اللبن وا لسمن بينهما أنصافا فالإجارة فاسدة … و الحيلة في جوازه أن يبیع نصف البقرة منه بثمن و يبرئه عنه ثم يأمر باتخاذ اللبن و السمن فيكون بينهما.(4/ 446 )
© Copyright 2024, All Rights Reserved