• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر

بلااجازت موٹر سائیکل استعمال کرنے کی صورت میں موٹرسائیکل چوری ہوجانا

استفتاء

پی کمپنی سینٹری کا سامان بناتی ہے اور ڈیلرز کے ذریعے فروخت کرتی ہے۔کمپنی کی طرف سے ملازمین کو کمپنی کے کاموں میں استعمال کیلئے موٹر سائیکل دی جاتی ہیں جو کمپنی ہی کی ملکیت ہوتی ہیں ،ملازمین کو صرف استعمال کے لئے دی جاتی ہیں۔حال ہی میں کمپنی کی طرف سے ایک ملازم کوموٹر سائیکل خرید کر دی گئی اور اسے کہا گیا کہ یہ موٹر سائیکل کمپنی کے نام کروانی ہے،اس کے کاغذات بنیں گے،نمبر پلیٹ وغیرہ لگے گی۔ یہ ساروائی کرنے کے بعد آپ اسے استعمال کرسکتے ہیں،اس سے پہلے استعمال نہ کریں۔لیکن اس ملازم نے یہ کاروائی کئے بغیر فرضی نمبر پلیٹ لگواکرکمپنی انتظامیہ کی اجازت کے بغیراس موٹر سائیکل کو استعمال کرلیا اور کمپنی ہی کے کام سے باہر چلا گیااور ایک جگہ پر اس نے موٹر سائیکل کھڑی کرکے لاگ لگادیا اور کام کرنے اندر چلا گیا،جب کام سے فارغ ہوکر باہر آیا تو وہ موٹر سائیکل وہاں پر موجود نہیں تھی بلکہ چوری ہوچکی تھی۔اب وہ ملازم اس بات کا اعتراف کررہاہے کہ وہ کمپنی کی پالیسی کے مطابق کارروائی کئے بغیر موٹر سائیکل باہر لے گیا ۔

اب سوال یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں گمشدہ موٹر سائیکل کا ضمان شرعاً اس ملازم سے لیا جاسکتا ہے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورتِ میں موٹرسائیکل ملازم کے پاس امانت تھی،جس کا حکم یہ ہے کہ اگرامین کی تعدی یا غفلت ولاپرواہی کی وجہ سے امانت ہلاک ہوتووہ ضامن ہوگا۔مذکورہ صورت میں کمپنی کی طرف سے دی گئی ہدایات کی خلاف ورزی کی صورت میںملازم کی طرف سے غفلت اور لاپرواہی پائی گئی ہے لہٰذا اس کی وجہ سے ہونے والے نقصان کا ضمان شرعاً اس ملازم سے لیا جاسکتا ہے ۔

(۱)         کذافي الفتاوي الهندية: (۴/۳۴۱)

الباب الثالث في شروط يجب اعتبارها في الوديعة ولا يجب

والأصل المحفوظ في هذا الباب ما ذکرنا أن کل شرط تمکن مراعاته ويفيد فهو معتبر وکل شرط لا تمکن مراعاته ولا يفيد فهو هدر کذا في ۔۔۔وهذا کله إذا لم ينه عنها ولم يعين مکان الحفظ نصا وإن نهاه نصا وعين مکانه فسافر بها وله منه بد ضمن کذا في الفتاوي العتابية۔

(۲)         درر الحکام شرح مجلة الأحکام: (۲/۳۰۸)

المادة:(۸۱۴) اذا حصل من المستعير تعد أو تقصير بحق العارية ثم هلکت أو نقصت قيمتها فبأي سبب کان الهلاک أو النقص يلزم المستعير الضمان،مثلا اذا ذهب المستعير بالدابة المعارة إلي محل مسافته يومان في يوم واحد فتلفت تلک الدابة أو هزلت أو نقصت قيمتها لزم الضمان وکذا لو استعار دابة ليذهب بها إلي محل معين فتجاوز بها ذلک المحل ثم هلکت الدابة حتف أنفها لزم الضمان۔۔۔۔۔۔۔۔فلو حصل من المستعير تعد أو تقصير بحق العارية ثم هلکت أو نقصت قيمتها فبأي سبب کان الهلاک أو النقص أي سواء کان بتعد وتقصير أم بسبب آخر أم ماتت الدابة حتف أنفها ; لأن المستعير لما أصبح في حکم الغاصب فقد تحولت يد أمانته إلي يد ضمان . أي أنه يلزم ضمان مثل العارية إذا کانت من المثليات وقيمتها تامة إذا کانت من القيميات وقيمة النقصان فقط في حال النقصان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ايضاح القيود:۔۔۔۔۔۔۔۳ جاء ‘ بأي سبب من الأسباب , يعني لو تلف المستعار بتعدي المستعير أو تقصيره مرة أو طرأ علي قيمته نقصان أو لو لم يحدث التلف ولم يطرأ النقصان بذلک التعدي والتقصير بل کان ذلک بعد ترک المستعير التعدي ودعوته إلي الوفاق أو تلف بعد ذلک بلا تعد ولا تقصير أو نقصت قيمته کان المستعير ضامنا . مثلا لو استعار أحد فرسا ليرکبه إلي المحل الفلاني وبلغ ذلک وتجاوزه إلي مکان آخر فلا يبرأ من الضمان إذا عاد إلي المکان المقصود ويکون الفرس مضمونا إلي أن يعيده إلي صاحبه سالما فلو تلف في يده۔

(۳)         المجلة مادة: (۹۶)

لايجوز لأحد أن يتصرف في ملک غيره بلا إذنه، أو وکالة منه أو ولاية عليه، وإن فعل کان ضامناً۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved