- فتوی نمبر: 1-245
- تاریخ: 21 اگست 2007
- عنوانات: مالی معاملات > مضاربت
استفتاء
میں یعنی بکر نے بذریعہ عمر زید کو پی سی او کے کام کے لیے تقریباً تین لاکھ روپے کی رقم ادا کی۔ چونکہ عمر نے کہا تھا کہ 40 ہزار روپے تک تقریباً نفع آج کل رائے ونڈ کے پی سی او میں ہوتا ہے اگر آپ رقم دے دیں تو آدھا منافع فریق اول زید جو کہ مالک دکان بھی ہیں لے گا اور آدھا نفع آپ ( بکر) لیں گے اور پی سی او ملازمین چلائیں گے جن کی تنخواہ مشترکہ آمدن سے ہوگی۔ فریق اول کا کام نگرانی اور مہینے کے بعد حساب کتاب لینا ہوگا۔ اور فریق اول زید کے لیے دکان کا کرایہ مقرر کیا گیا اور منافع میں آدھا نفع بھی لیتا رہا۔ اس بنیاد پر تین لاکھ روپے بکر نے دیے۔ کچھ عرصہ بعد موبائل نیٹ ورک کی ارزانی اور رائے ونڈ مرکز کا مزکری گیٹ ( جس کے سامنے پی سی او بنایا گیا تھا) تبدیل ہونے کی وجہ سے پی سی او بند کر دیا گیا اور تاحال بند ہے۔ فون کمپنی کو پی سی او لگانے کی مد میں ناقابل واپسی ایک لاکھ چھتیس ہزار رواپے بھی دیے گئے تھے جس کے بارے میں فریقین کو علم تھا کہ یہ رقم واپس نہیں ہوگی۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ اس انداز شرکت کی شرعی حیثیت کیا بنتی ہے؟ اور آیا اس قسم کی شراکت میں نقصان کے فریقین ذمہ دار ہیں یا صرف صاحب سرمایہ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
کارو بار کی مذکورہ صورت شراکت یا مضاربت کی نہیں بلکہ اجارہ کی ہے۔ اور کارو بار میں نقصان کا کام کرنے والے کی کوتاہی اور غفلت کے بغیر ہوا ہے لہذا اس نقصان کا ذمہ دار صرف مالک ہے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved