• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بلا تملیک زکوٰة کی رقم مدرسہ کے اخراجات میں صرف کرنا

استفتاء

بندہ**** عرصہ سات سال سے مدرسہ**** میں مدیر منتظم ہے۔ مدرسہ کی تعمیر چندے سے نہیں بلکہ ذاتی جمع پونجی سے کی۔ مدرسے میں اسی بچیاں پڑھتی ہیں جو کہ غیر مقیم ہیں۔ مدرسہ کو جو زکوٰة صدقات، خیرات ملتی اسی سے ہم اساتذہ کی تنخواہ نکالتے ہیں اور سپارے و کتابیں اور کبھی کھانا بھی دیتے ہیں مدرسے میں پڑھنے والے بچے اور بچیاں تمام غریب اور مستحق ہیں ان میں یتیم بچے بھی ہیں۔ مدرسے والا تمام علاقہ غریب ہے۔ مدرسے میں پڑھنے والے بچوں سے کسی قسم کی فیس نہیں لیتے بلکہ  ۔۔۔ کبھی بعض بچوں کو مدرسے سے دیتے ہیں۔ غرض تمام اخراجات مدرسے کی مد میں سے نکالتے ہیں۔ مدیر منتظم کی اپنی ذاتی یا مدرسے کی پرافٹ بھی نہیں ہے اور نہ ہی اپنا کوئی کاروبار ہے۔ اب ہمیں دو مہینے پہلے کسی نے بتایا کہ بغیر تملیک کے مدرسے کے اخراجات پورے کرنا صحیح نہیں ہے۔ ہمیں اس چیز کا علم نہیں تھا۔ اب یہ بتائیں کہ عرصہ سات سال سے جن لوگوں نے زکوٰة دی کیا ان کی زکوٰة ادا ہوگئی؟ اگر ہوئی تو اس کی صورت کیا ہے؟ بندہ کی تنخواہ اب کمیٹی دیتی ہے۔ عرصہ دو ماہ سے بندہ تو خود مستحق زکوٰة ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

زکوٰة ادا ہوگئی ہے کیونکہ بعض حضرات ([1]) کہتے ہیں کہ مھتمم و مدیر فقیر طلباء کا وکیل ہے اور مزید تملیک کی ضرورت نہیں۔ ہم اس مسئلے کو اور طریقے سے لیتے ہیں جو ہماری کتاب ” فقہی مضامین” میں مندرج ہے۔ بہر حال آپ آئندہ زکوٰة کی تملیک کروا لیا کریں۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved