• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بلا وجہ طلاق وتنسیخ نکاح کا مطالبہ

استفتاء

ایک مسئلہ ہے جس کا حل شریعت محمدی آپ کی رائے اور معاونت درکار ہے۔ یہ کہ ایک نکاح  1987 میں والد (وارث) نے  کردیا تھا۔ مسمی ***  ، لڑکی*** سے انجام پایا۔ لڑکے والوں نے شادی کا مطالبہ کیا تو لڑکی والوں نے کہا دوسال کے بعدرخصتی کردیں گے ۔ دو سال کے بعدپھر ایک سال کی مہلت  مانگی ۔ جبکہ سن بلوغت کو تقریبا دس سال گذرچکے تھے ۔ وعدہ سے انحراف کرتے ہوئے  رشتہ دینے سے انکار کردیا۔ اب لڑکی والے عدالت سے یہ بیان لڑکی نکاح فسخ کراناطلاق لینا چاہتے ہیں اس بارے میں شریعت محمد ی کیا حکم فرماتی ہے۔

وضاحت مطلوب ہے: کس بنیا دپر طلاق لینا چاہتے ہیں؟

جواب وضاحت: بلاوجہ طلاق لینا چاہتےہیں۔ دوسال پہلے کہتے تھے آج دیتے ہیں کل دیتے ہیں، ٹال مٹول کررہے تھے۔ اب انہوں نے صاف انکار کردیا ہے ۔ جبکہ لڑکی نے طلاق حاصل کرنے کے لیے کوٹ میں دعوی دائر کردیاہے۔ جبکہ لڑکا عدالت میں حاضر ی نہیں دے رہا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جب طلاق لینے یا نکاح فسخ کرانے کی کوئی شرعی وجہ موجود نہیں تو عدالت کو بھی نکاح فسخ کرنے کا اختیا رنہیں ۔ اگر عدالت ایسا کرے گی تو اس کا حکم قابل اعتبار نہ ہوگا۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved