- فتوی نمبر: 7-202
- تاریخ: 20 جنوری 2015
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
کیا بیمہ کمپنی سے زندگی کا بیمہ کروانا جائز ہے؟ کچھ کاغذات ساتھ منسلک ہیں جن میں بیمہ پالیسی کا طریقہ کار اور تفصیلات ہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
بیمۂ زندگی میں اگر دو سال کے بعد بیمہ کرانے والے کا انتقال ہو جائے تو اس کے وارثوں کو پانچ لاکھ روپے ملیں گے، بیمہ کرانے والے نے صرف ایک یا ڈیڑھ لاکھ روپے جمع کرائے ہوں گے لیکن پانچ لاکھ روپے ملیں گے، یہ کھلا سود ہے۔ بیمہ زندگی کی سکیم اسی شق پر چلتی ہے۔
اگر یہ خیال ہو کہ بیمہ زندگی کرانے والے نے ڈیڑھ لاکھ جمع کرائے اور اب جو پانچ لاکھ مل رہے ہیں وہ اس کے وارثوں کو مل رہے ہیں۔ دینے والا کوئی اور ہے اور لینے والا بھی کوئی اور ہے، لینے والے نے تو کوئی پیسہ جمع نہیں کرایا اور نہ ہی اس کے ساتھ انشورنس کا معاملہ طے پایا تو جو کچھ انشورنس کمپنی نے دیا وہ ایک تو ادا کردہ رقم ہے اور دوسرے ہدیہ ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ جو کچھ بیمہ کمپنی دیتی ہے وہ خالص ہدیہ نہیں ہے، بلکہ میت کے ساتھ تو اس کو جمع کرائی ہوئی طے شدہ معاملہ ہے کہ اگر وہ زندہ رہا تو اس کو جمع کرائی ہوئی رقم مع سود کے ملے گی اور اگر مر گیا تو بیمہ پالیسی کی بنیاد پر ملے گی، اس وجہ سے جو کچھ وارثوں کو ملا اس کی بنیاد جوا ہے اور وہ رقم ابتداءً میت کو اس کے آخری وقت میں ملی اور پھر وارثوں میں تقسیم ہوئی۔ فقط و اللہ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved