- فتوی نمبر: 33-80
- تاریخ: 21 اپریل 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
1۔میری ایک بیوی ،ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں۔ میرے والدین کا انتقال ہوچکا ہے ۔میں اپنی زندگی میں وراثت تقسیم کرنا چاہتا ہوں اس کے لیے کوئی شرعی حکم ہے ؟ اگر ہے تو فیصد کے اعتبار سے بتا دیں۔ اگر نہیں تو کیا میں اپنی مرضی سے تقسیم کر سکتا ہوں؟
2۔اگر میرا انتقال ہو جاتا ہے تو میری بیوی ، بیٹا اور دو بیٹیوں میں کتنے فیصد کے حساب سے وراثت تقسیم ہوگی؟ برائے مہربانی مجھے الگ الگ شرعی حساب سے تحریری فتوی چاہیے ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔مذکورہ صورت میں بہتر طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنی ضرورت کے مطابق جتنا مال رکھنا چاہیں اتنا رکھ کر باقی کا آٹھواں حصہ بیوی کو دے دیں اور باقی کو بیٹے بیٹیوں میں برابر تقسیم کردیں۔اور اس کی بھی گنجائش ہے کہ باقی کے چار حصے کریں اور ایک ایک حصہ ہر بیٹی کو اور دو حصے بیٹے کو دے دیں اور اگر آپ بیٹے بیٹیوں میں سے کسی کو اس سے بھی کم و بیش دینا چاہتے ہیں تو اس کی بھی گنجائش ہے بشرطیکہ جس کو زیادہ دیا جائے اسے زیادہ دینے کی کوئی خاص معقول وجہ ہو اور جسے کم دیا جائے اسے محروم کرنا مقصود نہ ہو ۔
2۔آپ کے انتقال کے وقت اگر آپ کے ورثاء میں مذکورہ افراد( بیوی ، بیٹا اور دو بیٹیاں )ہی ہوئے تو آپ کے ترکہ کے کل 32 حصے کیے جائیں گے جن میں سے بیوی کو چار حصے (12.5 فیصد)بیٹے کو 14 حصے (43.75 فیصد) اور دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو 7 حصے (21.875 فیصد) ملیں گے ۔
فتاویٰ شامی (8/583) میں ہے:
وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى
(قوله وعليه الفتوى) أي على قول أبي يوسف: من أن التنصيف بين الذكر والأنثى أفضل من التثليث الذي هو قول محمد. رملي
خلاصۃ الفتاویٰ (4/400) میں ہے:
وفي الفتاوى رجل له ابن وبنت اراد أن يهب لهما شيئا فالأفضل أن يجعل للذكر مثل حظ الأنثيين عند محمد، وعند أبي يوسف بينهما سواء هو المختار لورود الآثار.
ولو وهب جميع ماله لإبنه جاز في القضاء وهو أثم نص عن محمد هكذا في العيون ولو اعطى بعض ولده شيئا دون البعض لزيادة رشده لا بأس به وإن كان سواء لا ينبغي أن يفضل.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved