- فتوی نمبر: 31-29
- تاریخ: 20 اپریل 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
1- ایک شخص کی تین بیٹیاں ہیں اور ایک بیوی ہے بیٹا کوئی نہیں اور نہ ہی ماں باپ ہیں ۔البتہ تین بھائی اور ایک بہن اور ان کے بچے بھی ہیں۔ وراثت کیسے تقسیم ہو گی ؟
2 -کیا وہ اپنی زندگی میں سب کچھ بیٹیوں کے نام کر سکتا ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ مذکورہ صورت میں وراثت کی تقسیم اس طرح ہو گی کہ کل مال کے 504 حصے کیے جائیں گے ،جن میں سے112 حصے ( %22.22) فی کس ہر بیٹی کو اور 63 حصے ( %12.5) بیوی کو اور 30 حصے ( %5.95) فی کس ہر بھائی کو اور 15 حصے ( %2.97) بہن کو ملیں گے۔
2۔ مذکورہ شخص زندگی میں اپنی کل وراثت اپنی بیٹیوں کے نام کر سکتا ہے تا ہم اگر اس سے مقصود کسی وارث کو حقِ وراثت سے محروم کرنا ہو تو اس پر گناہ ہو گا ۔
الدر المختار(8/573)میں ہے:
(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل.
مشکوۃ (2/925) میں ہے:
عن أبي هريرة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إن الرجل ليعمل والمرأة بطاعة الله ستين سنة ثم يحضرهما الموت فيضاران في الوصية فتجب لهما النار» ثم قرأ أبو هريرة (من بعد وصية يوصى بها أو دين غير مضار) إلى قوله (وذلك الفوز العظيم)
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (5/ 2039) میں ہے :
«فيضاران في الوصية» ) من المضارة أي: يوصلان الضرر إلى الوارث بسبب الوصية للأجنبي بأكثر من الثلث، أو بأن يهب جميع ماله لواحد من الورثة كيلا يرث وارث آخر من ماله شيئا، فهذا مكروه وفرار عن حكم الله تعالى، ذكره ابن الملك، وفيه: أنه لا يحصل بهما ضرر لأحد، اللهم إلا أن يقال معناه فيقصدان الضرر، وقال بعضهم: كان يوصي لغير أهل الوصية أو يوصي بعدم إمضاء ما أوصى به حقا بأن ندم من وصيته أو ينقض بعض الوصية ( «فتجب لهما النار» ) أي: فتثبت والمعنى يستحقان العقوبة، ولكنهما تحت المشيئة
مظاہر حق (3/259) میں ہے :
فَيُضَارَّانِ یعنی ورثاء کو تکلیف پہنچاتے ہیں کہ اجنبی کے حق میں تہائی سے زیادہ وصیت کر جاتے ہیں یا اپنا تمام مال ایک وارث کو ہبہ کر جاتے ہیں تا کہ دوسرے وارث کو کچھ بھی مال نہ پہنچے۔ پس ایسا کرنا مکروہ ہے۔ یہ اللہ کے حکم سے بھاگنے والی بات ہے اس کے سبب سے وہ دوزخ کے لائق ہو جاتے ہیں۔ پھر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس روایت کی تائید اور اپنے بیان کی وضاحت کیلئے یہ آیت پڑھی۔ ” من بعد وصیہ ” اس آیت سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ وصیت کرنے میں ضرر نہ پہنچایاجائے کہ وہ ایک تہائی سے زیادہ میں وصیت کر جائے ۔
فتاوی قاضی خان ( علی ہامش الہندیۃ) (3/279) میں ہے:
ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا وروي عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف رحمه الله تعالى أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved