• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیوی کا الگ کمرہ، باتھ(بیت الخلاء) اور کچن کا مطالبہ کرنا

استفتاء

میری شادی کو کم و بیش بیس سال ہو گئے ہیں ، ماشاء اللہ تین بچے ہیں۔ہم لوگ شروع سے ہی جوائنٹ فیملی سسٹم کے تحت رہتے ہیں یعنی میرے والدین، بہن بھائی اور بیوی بچے سب ساتھ رہتے آئے ہیں لیکن اب کوئی ساتھ نہیں، میرے والدین کے ویزے کرونا کی وباء کی وجہ سے کینسل ہوگئے تھے۔اب میں انہیں واپس اپنے پاس بلانا چاہتا ہوں لیکن میری بیوی اس بات پر راضی نہیں اور مجھے دھمکی دیتی ہے کہ میں اپنے ماں باپ کے گھر چلی جاؤں گی اور بچوں کو بھی لے جاؤں گی،ہر عام و خاص گھر کی طرح میری والدہ اور بیوی کی بھی آپس میں نہیں بنتی اور میں کسی ایک کو قصوروار نہیں ٹھہراتا، لیکن اب بیوی کا اس حد تک جانا بہت تکلیف دہ ہے ۔وہ میرے والدین ہیں اور بڑھاپے کی عمر میں ہیں، بیمار ہیں اور ماں باپ کا حق بہت زیادہ اولاد پر بتایا گیا ہے، یہاں علاج معالجے کی سہولت بہتر ہے اسی لیے بہت تگ ودو  کر کے میں انہیں بلوا رہا ہوں میں نے بیوی بچوں کو کہا کہ میں بڑا گھر کرائے پر لے لیتا ہوں تمہارا کمرہ  اور واش روم الگ ہو گا ، وہ اس پر بھی نہیں مانتی کہتی ہے میرا کچن بھی الگ ہونا چاہیے۔اب میرے ہاتھ میں اتنی وسعت نہیں  کہ ایک حد سے زیادہ بڑا گھر کرائے پر لے سکوں(لیکن اس حد تک لے رہا ہوں کہ بیوی کا کمرا اور واش روم الگ ہوں)حضرت میں شدید پریشان ہوں ، اب آپ ہی میری راہنمائی فرمائیں کہ بیوی کا مطالبہ شرعاً درست ہے یا نہیں؟اور مجھے والدین کو بلانا چاہیے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں بیوی  کا مطالبہ شرعاً درست ہے، آپ کے ذمے لازم ہے کہ بیوی کو ایسی رہائش فراہم کریں جس میں الگ کمرہ، باتھ اور کچن ہو۔ رہی یہ بات کہ آپ کو والدین کو بلانا چاہیے یا نہیں تو یہ مشورہ کی بات ہے جو ہمارے دائر کار سے باہر کی چیز ہے ۔

الدر المختار مع ردالمحتار(3/600)میں ہے:

بيت منفرد من دار له غلق زاد في الاختيار والعيني ومرافق ومراده لزوم كنيف ومطبخ وينبغي الإفتاء به.

فتاویٰ ہندیہ (1/556)میں ہے:

"تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله وأهلها إلا أن تختار ذلك”. (الباب السابع عشر في النفقات

رد المحتار: (3/600) میں ہے:

قوله ( وفي البحر عن الخانية ) عبارة الخانية فإن كانت دار فيها بيوت وأعطى لها بيتا يغلق ويفتح لم يكن لهاأن تطلب بيتا آخر إذا لم يكن ثمة أحد من أحماء الزوج يؤذيها ا ه

قال المصنف في شرحه فهم شيخنا أن قوله ثمة إشارة للدار لا البيت لكن في البزازية أبت أن تسكن مع أحماء الزوج وفي الدار بيوت إن فرغ لها بيتا له غلق على حدة وليس فيه أحد منهم لا تمكن من مطالبته ببيت آخر

العقود الدریۃ (1/ 70) میں ہے:

واعلم أن المسكن أيضا لا بد أن يكون بقدر حالهما كما في الطعام والكسوة فليس مسكن الأغنياء كمسكن الفقراء فقولهم يعتبر في النفقة حالهما يشمل الثلاثة لما في الخلاصة أن النفقة إذا أطلقت تنصرف إلى الطعام والكسوة والسكنى اهـ ملخصا ونحوه في النهر فتنبه لذلك

فتاوی شامی(3/574) میں ہے:

"قال في البحر: واتفقوا على وجوب نفقة الموسرين إذا كانا موسرين، وعلى نفقة المعسرين إذا كانا معسرين وإنما الاختلاف فيما إذا كان أحدهما موسرا والآخر معسرا، فعلى ظاهر الرواية الاعتبار لحال الرجل، فإن كان موسرا وهي معسرة فعليه نفقة الموسرين، وفي عكسه نفقة المعسرين. وأما على المفتى به فتجب نفقة الوسط في المسألتين وهو فوق نفقة المعسرة ودون نفقة الموسرة”۔

مسائل بہشتی زیور(2/82) میں ہے:

مسئلہ:گھر میں ایک جگہ عورت کو الگ کر دے جہاں وہ اپنا مال و اسباب حفاظت سے رکھے اور خود اس میں رہے اور اس کی کنجی قفل اپنے پاس رکھے کسی اور کو اس میں دخل نہ ہو فقط عورت ہی کے قبضہ میں رہے تو بس حق ادا ہو گیا۔ اگر مال دار ہو تو اس حصہ میں بیت الخلاء اور کھانا پکانے کی جگہ بھی ہو۔

فتاویٰ عثمانی (2/569) میں ہے:

جواب:۔ ** کے اوپر واجب ہے کہ وہ اپنی بیوی کے نان ونفقہ اور رہائش کا اس طرح انتظام کرے کہ وہ کسی کی محتاج نہ رہے ، اور رہائش کے لئے ایسا مقفل کمرہ ، باورچی خانہ اور بیت الخلاء ہونا ضروری ہے جس میں کسی دوسرے کا اشتراک نہ ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved