- فتوی نمبر: 10-154
- تاریخ: 30 اگست 2017
- عنوانات: حظر و اباحت > متفرقات حظر و اباحت
استفتاء
درج ذیل امور میں رہنمائی مطلوب ہے:
1۔ میں نے دوسرا نکاح کرنے سے پہلے بیوی اور اس کے والدین سے یہ شرائط رکھیں تھیں کہ میں صرف ہفتہ میں دو یا تین دن دوں گا وہ بھی صرف دو یا تین گھنٹے کے لیے، باقی ترجیح اوقات میں پہلی بیوی ہی کی ہو گی۔ نیز میرے ذمہ جو حقوق ہوں گے وہ معاف رکھیں انشاء اللہ خرچ میں تنگی نہ ہونے دوں گا، الگ رہائش کا بھی انتظام کر دیا ہے اور خرچہ علاج معالجہ وغیرہ ضروریات میں کوئی کمی نہیں ہے، وہ لوگ اس پر راضی ہیں اور دوسری بیوی کو بھی ان باتوں پر کوئی اشکال نہیں تو کیا میں عند اللہ گنہ گار تو نہیں؟ اور اگر دوسری بیوی اپنے حقوق (وقت کے حوالہ) سے پہلے سے معاف کر دینے کے باوجود دوبارہ مطالبہ کرے تو اب برابری نہ کرنے میں میں گنہ گار ہوں؟ اگر میں کوشش کے باوجود برابری قائم نہ رکھ سکوں تو اس کا حل دوسری بیوی کو کچھ دے دلا کر اپنی زوجیت سے الگ کرنے میں ہے؟ کیونکہ تجربہ شاہد ہے کہ میں دونوں کو ہر حال میں برابر نہیں رکھ سکتا۔
بارات بلوانے کا حکم
2۔ سنت کے مطابق بیٹی کا مسجد میں نکاح کرنے کے بعد اس کے شوہر کے گھر خود پہنچانے میں اگر گھر میں میاں بیوی کے درمیان اختلاف فساد ہو تو بارات بلا کر بچی کو بھجوانا جائز ہے حالانکہ بارات میں عورتیں بھی آئیں گی؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ بیوی اس پر راضی ہے تو آپ عند اللہ گنہ گار نہیں، اگر بیوی اپنے حقوق معاف کر دینے کے باوجود دوبارہ اپنے حقوق کا مطالبہ کرے تو حقوق ادا نہ کرنے کی صورت میں آپ گنہ گار ہوں گے۔
2۔ بارات بلوا سکتے ہیں تاہم آپ اپنے طور پر مردو اور خواتین کے لیے الگ الگ انتظام کریں تاکہ مرد و عورتوں کے درمیان اختلاط کی نوبت نہ آئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved