• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

۱۔بیوی کا اپنے شوہر سے الگ مکان کا مطالبہ کرنا(۲)خاوند کی اطاعت(۳)خلع کے متعلق سوال

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ایک خاتون جو کہ تعلیمی قابلیت کے لحاظ سے انجینئر ہے اس کی شادی اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک مرد انجینئر سے 2014میں انجام پائی جو کہ ایک مشہور ادارے میں مناسب عہدے پر فائز تھا شادی کے بعد وہ لڑکی اپنے سسرال میں ایک الگ کمرے میں شفٹ ہو گئی ۔شادی کے کچھ ہی عرصے کے بعد لڑکی کی ساس کی جانب سے ذہنی دبائو کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا جس میں ننگی گالیاں اور کچن میں داخلے پر پابندی وغیرہ شامل تھے ۔اکثر لڑکی کو دن میں صرف ایک وقت کھانا دیا جاتا تھا لڑکی کا شوہر بھی اپنی ماں کے مزاج سے واقف تھا لیکن مسئلہ کا کوئی حل نکالنے کی جگہ وہ بھی اپنی ماں کو آگے سے گالیاں دیتا تھا (اور یوں اپنے مطابق اپنی بیوی کا ساتھ دیتا تھا )کھانے کی شکایت کرنے پر شوہر کا م سے واپسی پر عورت کو کچھ لا دیتا تھا بازاری کھانا کھانے کی وجہ سے اکثر عورت کی ( اور بعد میں اس کے بچوں کی طبیعت بھی ناساز رہتی تھی اس کی ساس کی اپنے ایک دوسرے بیٹے اور شوہر سے بھی اس طرح کی گالم گلوچ چلتی رہتی تھی حالانکہ ساس کا دوسرا بیٹا اور شوہر بھی انجنیئر اور اچھے پیشے سے وابستہ ہیں ۔)واضح رہے کہ لڑکی کا تعلق ایک نمازی پرہیز گار گھرانے سے ہے اس کے والد مستقل نمازی اور دو بھائی قرآن کے حافظ اور انجینئر ہیں ۔لڑکی کے شادی سے پہلے والے گھر میں گالی گلوچ کا کوئی تصور بھی نہیں تھا اور نہ ہے۔

2015اور 2017میں عورت کے ہاں بالترتیب ایک بچہ اور بچی کی ولادت ہوئی مسلسل اس ماحول میں رہنے کی وجہ سے بچوں پر بھی برے اثرات مرتب ہورہے تھے اس لیے عورت نے اپنے لیے الگ مکان کی خواہش ظاہر کی لیکن کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ ہوا۔ بلآخر بات بڑھنے پر لڑکی کے والد بھی معاملے میں شامل ہو ئے اور لڑکا اور لڑکی کے والد نے مل کرفیصلہ کیا کہ الگ گھر ہونا چاہیے ۔ لڑکی کے سسر بھی اپنے گھر کے ماحول سے واقف تھے اور بذات خود ایک شریف النفس انسان تھے الگ گھر کے فیصلے کے دوران بھی لڑکے کی ماں نے تمام گھر والوں یعنی لڑکا ،سسر ،لڑکی ،لڑکی کے والد وغیرہ کے سامنے لڑکی کو گندی گالیاں دیں جن کے جواب میں لڑکے نے کوئی خاص جواب نہیں دیا ۔

واضح رہے کہ مالی لحاظ لڑکاشروع دن سے ایک الگ مکان کی مکمل استطاعت رکھتا تھا ۔لڑکے کے ادارے کی طرف سے اس کو مکان لینے پر قریبا 28ہزار روپے ملنے تھے جن سے آرام سے الگ گھر لیا جاسکتا تھا لڑکے کے ادارے میں کام کرنے والے اکثر ہم پلہ ملازمین اس سہولت سے فائدہ اٹھا کر الگ گھر میں رہ رہے تھے اور ہیں لیکن اس کے باوجود شوہر نے چار سال عورت کو اسی غلیظ ماحول میں رکھنے کو ترجیح دی جس کی وجہ سے شاید الگ گھر کی ذمہ داریوں سے فرار یا کچھ اور تھی ۔سسرال میں گھر کے اجتماعی اخراجات بجلی گیس بل ،کچن وغیرہ کی ذمہ داری سسر کی تھی ۔ان چار سالوں کے دوران لڑکی شوہر بچوں کی تمام ذمہ داریاں صفائی کپڑے دھونا اور جہاں تک ممکن ہو کچن میں کھانا بنانا وغیرہ پوری کرتی رہی ۔سسرالی گھر میں ملازمہ آنے کے باوجود بیوی اپنا گھر والوں کا کام خود کرتی تھی شادی سے پہلے عورت کے والدین کے گھر میں ملازمہ صفائی ،کپڑے وغیرہ دھوتی تھی ۔الگ گھر کا فیصلہ ہونے کے بعد لڑکے نے ایک مکان لے تو لیا لیکن اس مکان کی حالت ایسی رکھی (ٹوٹی الماریاں ،کچن ،بلاک گٹر وغیرہ)کہ اس میں مستقل رہنا فوری طور پر ممکن نہیں تھا ۔مکان کی حالت اس لڑکے کے ہم پلہ ملازمین کہیں کم تھی ۔لڑکے نے ادارہ کی طرف سے ملنے والی رقم میں سات ہزار روپے کی بچت کرلی کیوں کہ اس مکان کا کرایہ کم تھا۔لڑکے نے بیوی کو یہ کہہ دیا کہ اصل مسئلہ تو الگ کچن کا تھا نہ کہ مکان کا ،اس لیے ہم صرف کھانا کھانے کے لیے الگ گھر میں جایا کریں گے اس طرح دو چھوٹے بچوں کے ساتھ صبح وشام ایک گھر سے دوسرے گھر آنا جانا شروع ہو گیا ۔ساس کے گھر سے اندر اور باہر جاتے ہوئے بچوں کے سامنے پھر وہی گالیوں کا معمول جاری رہا ۔لڑکی نے پورے چار سال ایک دفعہ بھی ساس کو گالیوں کا جواب نہیں دیا ۔اسی طرح ایک سے ڈیڑھ ماہ گزر گیا جس میں لڑکے نے گھر کی حالت میں کوئی بہتری نہ کی بلکہ غالبا اضافی ذمہ داریوں کی وجہ سے اپنی بیوی کے ساتھ بھی اس کا رویہ کچھ خراب ہو گیا ۔ کام کے لیے کوئی ملازمہ بھی نہیں رکھی گئی جو کہ عرف اس کے ہم پلاملازمین کے مطابق ایک معمولی بات ۔اسی طرح ایک دن اپنی ماںیعنی لڑکی کی ساس سے لڑائی گالم گلوچ کے بعد رات کے گیارہ بجے اس نے لڑکی کو کچھ سامان اکٹھا کرکے اپنے گھر میں چلنے کو کہا لڑکی نے درج ذیل وجوہات کی بنا پر اس وقت چلنے سے انکار کردیا:

۱۔ بچوں کی طبیعت صبح سے خراب تھی اور باہر کافی سردی تھی ۔

۲۔ لڑکی کا کہنا تھا کہ مکمل سامان شفٹ کیا جائے تاکہ اس اذیت سے نجات ملے ۔بات بڑھنے پر لڑکے نے لڑکی کے والد کو فون کرکے بلوالیا اور ان کو سخت الفاظ میں اپنی بیٹی کو واپس گھر لے جانے کو کہا اس پر لڑکی کے والد لڑکی بچوں کو گھر واپس لے کر آگئے ۔اب لڑکی کا کہنا ہے کہ جب تک درج ذیل باتیں شوہر نہیں مانتا وہ واپس اپنے شوہر کے پاس نہیں جائے گی۔

۱۔ لڑکی اور لڑکا اس کے گھر والے ایک دوسرے کو گالیاں نہیں دیں گے ۔

۲۔ شوہر اپنی بیوی بچوں کے لیے عرف یعنی اپنے ہم پلہ ملازمین کی طرح کے مطابق ایک الگ گھر لے گا۔

۳۔            شوہر اپنی بیوی کے اپنے والدین سے رابطہ مہینے میں ایک دفعہ ملاقات اور ہفتے میں تین دفعہ فون پر تقریبا پندرہ سے بیس منٹ بات میں کوئی پابندی نہیںلگائے گا۔

۴۔            شوہر بیوی کے والدین خاندان کے بارے میں کوئی غلط زبان الفاظ استعمال نہیں کرے گا۔

اب صورتحال یہ ہے کہ لڑکی کم وبیش تین ماہ سے اپنے والدین کے گھر میں بیٹھی ہوئی ہے او راس کا کہنا ہے کہ جب تک شوہر ان باتوں پہ تحریری طور اتفاق نہیں کرتا وہ واپس نہیں جائے گی جب کہ شوہر کا کہنا ہے کہ شوہر کی بات ماننا عورت کی شرعی ذمہ داری ہے اس لیے وہ بغیر کسی ڈیمانڈ کے گھر واپس آجائے اور وہ ساری باتیں مل جل کرحل کرلیں گے ۔شوہر وضاحت سے کچھ بھی بتانے کو تیار نہیں ہے اور بیوی چا رسال اذیت اور گالیاں برداشت کرنے کے بعد اور اپنی اولاد کی تربیت اور مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے بغیر وضاحت ورضامندی کے واپس کو تیار نہیں ہے ۔ شوہر اپنی ماں کے غلط رویہ سے واقف ہے لیکن اس رویہ سے اپنی بیوی کو بچانے کے لیے کوئی ٹھوس اقدام کرنے یہاں تک کہ کچھ بتانے وضاحت دینے کو بھی تیار نہیں ہے اس ساری صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے درج ذیل سوالات کے جوابات درکار ہیں۔

۱۔ کیا بیوی کا بغیر وضاحت ورضامندی کے اپنی ساس کے گھر واپسی نہ جانا باوجود شوہر کے اصرار کے درست ہے ؟اور اگر اس عورت کے والدین بھائی سمجھانے مسئلہ حل کروانے کی نیت سے اس کاساتھ دیتے ہیں تو کیا یہ درست ہے ؟

۲۔ کیا شرعی لحاظ سے شوہر کی ہر بات جو کہ خلاف شریعت نہ ہو من وعن ماننا ضروری ہے ؟اس میں شوہر کا بیوی کو گاڑی دھونے کا کہنا اپنے دفتری یا کاروبار کے کام میں ہاتھ بٹانے کا کہنا (جب کہ بیوی باقی تمام ذمہ داریاں بھی ساتھ میں خود ہی پوری کررہی ہو )بھی شامل ہے جب کہ عرف ہم ،پلاملازمین کے مطابق ایسا کوئی بھی کام بیویاں نہ کررہی ہو ں ۔اگر مسلسل گھریلو شوہر کی ذمہ داریوں کی وجہ سے عورت کی صحت خراب ہو رہی ہو یا بچوں کی تربیت متاثر ہو رہی ہو تو اس صورت میں کیا حکم ہے ؟

۳۔            مندرجہ بالاتمام حالات کو سامنے رکھ کر اگر عورت بغیر صلح نامے پر اتفاق دستخط کے زندگی ساتھ گزارنے پر تیار نہ ہو اور شوہر سے طلاق اور نہ دینے پر قاضی کے ذریعے خلع یا تنسیخ نکاح کا فیصلہ کرے تو درست ہو گا ؟واضح رہے کہ شوہر بات نہ ماننے کی صورت میںتقریبا دو دفعہ طلاق کی دھمکی بھی دے چکا ہے اگر چہ اس نے عملا کیا کچھ نہیں ہے ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

۱۔مذکورہ صورت میں شوہر کی جو مالی حیثیت ذکر کی گئی ہے اس کے مطابق شوہر کے ذمے ہے کہ وہ بیوی کو ایسا گھر فراہم کرے جس میں کچن اور باتھ روم بھی ہو اور اس میں کسی اور کی بالکل دخل انداز ی نہ ہو ۔شوہر جب تک ایسا گھر فراہم نہیں کرتا اس وقت تک بیوی شوہر کے گھر جانے سے رک سکتی ہے۔اس صورت میں بیوی کے والدین اور بھائی بھی بیوی کاساتھ دے سکتے ہیں ۔ اسی طرح رابطہ اور ملاقات پر پابندی نہ لگانے کی بات بھی درست ہے اور اس کی وجہ سے بھی بیوی رک سکتی ہے ۔لیکن بیوی کا اس بنیاد پر اپنے شوہر کے گھر جانے سے رکنا درست نہیں کہ لڑکی اور لڑکے کے گھر والے ایک دوسرے کو گالیاں نہیں دیں گے کیونکہ اگرچہ گالیاں دینا گناہ کی بات ہے لیکن یہ لڑکے یا اس کے گھر والوں کا ذاتی فعل ہے ۔

۲۔شوہر کی جو بات خلاف شرع نہ ہو اس میں شوہر کی اطاعت ضروری ہے تاہم اتنا ضروری ہے کہ وہ بات یا کام بیوی بآسانی انجام دے سکتی ہو اور اس کے نتیجے میں صحت پر یا دیگر امور واجبہ پر اثرنہ پڑے۔

۳۔جن وجوہ کی وجہ سے بیوی اپنے شوہر کے گھر جانے سے رک سکتی ہے ان کی وجہ سے اگر طلاق کا مطالبہ کرتی ہے تو یہ درست ہے ،کیونکہ یہ بیوی کے حقوق ہیں اور بیوی اپنے حقوق نہ ملنے پر طلاق کا مطالبہ کرسکتی ہے ۔تاہم جہاں تک عدالتی خلع کی بات ہے تو اس میں یہ دیکھا جائے گا کہ مذکورہ حقوق نہ ملنے کے باوجود بیوی اپنے خرچے کاخود انتظام کرسکتی ہے یا نہیں ؟ یاخرچ کا نظم تو ہوسکتا ہے مگر شوہر سے دور رہ کر عفت کے ساتھ زندگی گزارنا مشکل ہے یا نہیں ؟ لہذااگر عدالتی خلع کی نوبت آئے تو اس کے متعلق موقع پر تفصیل ذکر کرکے معلوم کرلیا جائے ۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved