- فتوی نمبر: 6-265
- تاریخ: 14 فروری 2014
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
میرے بڑے بھائی نے زندگی کے آخری ایام میں بیرون ملک سے واپسی کے بعد اپنی بیوی کے اصرار پر اپنے سسرالی شہر راولپنڈی میں ایک دو منزلہ مکان تعمیر کرایا، جو اس کی بیوی کے نام ہے، نام کروانے کی وجہ معلوم نہیں۔ بھائی کے انتقال کے بعد ہماری بھابھی زمینی منزل کے کرایہ سے استفادہ کرتی رہی اور اپنی وفات سے قبل یہ مکان اپنی لے پالک بھتیجی کو بمطابق کاغذات فروخت کی گئی۔
عرض گذار ہوں کہ کیا ہم اپنے بھائی کے پسماندگان اس وراثت میں کچھ حق رکھتے ہیں؟ کیونکہ وصیت بھی 25 فیصد سے زائد نہ ہے اور یہ کہ حقیقی ورثاء کو کسی طرح سے وراثت سے محروم نہیں کیا جا سکتا؟
تنقیحات: بھائی کی اولاد نہیں ہے، ماں باپ بھی وفات پا چکے ہیں۔ مذکورہ قطعہ زمین کی خرید (رجسٹری وغیرہ) بھابھی کے نام ہے اور وہی اس میں رہائش پذیر تھیں اور مکان بھی انہی کے نام رجسٹرڈ ہے، دو منزلہ مکان کی زمینی منزل چونکہ قدرے وسیع تھی اس لیے کرایہ پر دے رکھی تھی اور بالائی منزل میں وہ رہائش پذیر تھیں، یعنی بھابھی نے ان کو ہر طرح تصرف کا حق دیا تھا۔ بھائی نے باقاعدہ کوئی وصیت نہ کی تھی۔ ہم نے بھابھی کی زندگی میں ان سے کوئی مطالبہ نہیں کیا تھا کہ دل آزاری ہو گی، گمان تھا کہ وہ خود ہی آخری عمر میں مکان ہمیں دے دیں گی۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں شوہر نے بیوی کے کہنے پر بیوی کے میکے شہر میں مکان بنایا اور وہ بھی اپنی عمر کے آخری ایام میں، اور بیوی کے نام پر کاغذات بنوائے اور شوہر باہر ملک میں کام کرتا تھا اور اس کی اولاد بھی نہیں ہے، یہ تمام باتیں اس بات پر قوی قرینہ ہیں کہ شوہر نے یہ مکان خاص اپنی بیوی کے لیے بنایا ہے۔
ایسی حالت میں یا تو بھتیجی کو مالک سمجھا جائے یا بیوی کے جو وارث ہوں وہ دعویٰ کریں۔ شوہر کے وارث اس مکان میں حقدار نہیں ہیں۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved