- فتوی نمبر: 34-89
- تاریخ: 19 اکتوبر 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وصیت کے احکام
استفتاء
ہماری شادی سن 2002 میں ہوئی تھی ۔جب شادی ہوئی اس وقت میرے شوہر ایک پرائیویٹ دکان پر کام کرتے تھے جس سے ہمارا گھر چلتا تھا ۔پھر ہم دونوں نے مل کر 2008میں ایک پرائیویٹ سکول بنایا جس میں میرے خاوند نے اور میں نے مل کر رقم انویسٹ کی ۔پانچ تولہ سونا میرا تھا اور نقد رقم خاوند نے شامل کی تھی،سونا میرے شوہر نے فروخت کیا تھا مجھے یہ علم نہیں ہے کتنے کا فروخت ہوا تھا اور نہ ہی میں نے کبھی پوچھا کہ آپ نے کتنی انویسٹ کی تھی البتہ اتنا معلوم ہے کہ سکول کی بلڈنگ 60 لاکھ کی لی تھی ،چنانچہ ایک بلڈنگ لے کر ہم نے سکول شروع کیا۔سکول چلنے کے آٹھ سال بعد اس سکول کی آمدن سے ہم نے ایک گیارہ مرلے کی اپنی ذاتی بلڈنگ خریدی جس میں پانچ مرلے میرے نام اور چھ مرلے میرے خاوند کے نام پر ہے ۔اس کے دو سال بعد ہم نے ایک اور چار مرلے کا پلاٹ خریدا اور تعمیر کروایا جوکہ میرے خاوند کے نام پر ہے ۔میرے خاوند کو جو رقم وراثت میں ملی اس کا ہم نے پانچ مرلے کا ایک اور پلاٹ گھر بنانے کے لیے خریدا۔ اس گھر کی تعمیر کے لیے تمام رقم سکول کی آمدن سے جاتی تھی ۔ہماری شادی کو سترہ سال گزر گئے لیکن اللہ کی طرف سے کوئی اولاد نہیں ہوئی ۔اولاد کے لیے میرے شوہر نے دوسری شادی کی لیکن اللہ کی شان اس میں سے بھی کوئی اولاد نہیں ہوئی ۔میرے شوہر کا انتقال 6 مئی 2023 میں ہوا ۔ان کی وفات کے بعد میں نے اکیلے سکول چلایا اور سکول کی آمدن سے گھر کی تعمیر مکمل ہوئی اور میرے خاوند پر جو قرضہ (سات لاکھ )تھا وہ بھی اتارا۔قرض کچھ تو سکول کی کتابوں کے اسٹاک کی وجہ سے تھا اور کچھ شوہر کی بڑی بہن کا قرض تھا۔
میرے خاوند نے وفات سے پہلے اپنے حساب والے رجسٹر پر ایک وصیت لکھی تھی جس میں انہوں نے اپنا سب کچھ میرے نام لکھا تھا (جس کی کاپی ساتھ لف ہے) ۔شوہر کے ورثاء میں چار بھائی،تین بہنیں اور میرے علاوہ ان کی ایک اور بیوی ہے ۔اب میں پوچھنا یہ چاہتی ہوں کہ یہ جو سکول کا کاروبار ہے اس میں ان کے بہن بھائیوں اور دوسری بیوی کا بھی حصہ بنتا ہے یا نہیں اور بنتا ہے تو کتنا بنتا ہے ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ مذکورہ صورت میں چونکہ اس سکول کی تعمیر میں آپ کا سونا بھی استعمال ہوا تھا اس لیے وہ سکول اور اس کی آمدنی سے بنی ہوئی چیزیں جائیداد وغیرہ آپ اور آپ کے شوہر میں مشترک شمار ہوں گی اور آپ کا اس میں ذاتی حصہ کتنا بنتا ہے اس کو معلوم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ 2008 میں سونے کا جو ریٹ بنتا ہے اس لحاظ سے 5 تولہ سونے کا ریٹ نکالا جائے گا پھر 60 لاکھ کی جو عمارت خریدی گئی اس میں ان 5 تولہ سونے کی قیمت کی نسبت ( ریشو ) دیکھی جائے گی کہ کتنی بنتی ہے اسی لحاظ سے اس اسکول اور اس کی آمدنی سے بنی ہوئی جائیداد وغیرہ آپ کی ذاتی ملکیت شمار ہوں گی اور باقی شوہر کی شمار ہوں گی ۔
2۔ شوہر نے جو جائیداد وراثت کے پیسوں سے بنائی وہ بھی شوہر کی ذاتی شمار ہوگی ۔
3۔آپ نے شوہر کی وفات کے بعد سکول کی کمائی سے جو شوہر کاقرضہ (یعنی جو انہوں نے اپنی بہن کے دینے تھے ) اتارا ہے اس میں اسی تناسب سے شوہر کے مال میں سے لے سکتی ہیں جس حساب سے آپ کا مشترکہ کمائی میں حصہ بنتا ہے(باقی قرضہ یعنی سکول کی کتابوں کے اسٹاک کا چونکہ مشترکہ تھا اور مشترکہ کمائی سے ادا ہوا ہے اس لیے وہ شوہر کے مال میں سے لینے کا حق نہ ہوگا۔ )
4۔ اسی طرح وراثت کے پلاٹ پر جو مکان بنا ہے وہ چونکہ مشترکہ کمائی سے بنا ہے لہذا وہ تعمیر بھی مشترکہ شمار ہوگی اور اس میں بھی آپ شریک ہوں گی اور تعمیر میں آپ کا کتنا حصہ بنتا ہے اس کو معلوم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس تعمیر کے بغیر خالی پلاٹ کی قیمت لگوائی جائے گی اور پھر تعمیر کے ساتھ مکمل یعنی پلاٹ اور عمارت کی قیمت لگوائی جائے گی دونوں میں جو فرق ہوگا وہ عمارت کی قیمت بنے گی جس میں آپ بھی اپنے تناسب سے شریک ہوں گی ۔
5۔ جو شوہر کا مال بنے گا وہ اصلا وراثت بنے گا جس میں سب ورثاء کا حق ہے شوہر کی وصیت کے مطابق آپ کو نہیں ملے گا کیونکہ آپ وارث ہیں اور وارث کے حق میں وصیت معتبر نہیں ہوتی بلکہ دیگر ورثاء کی اجازت پر موقوف ہوتی ہے لہذا اگر وہ اپنی خوشی سے آپ کو دینا چاہیں تو وہ دے سکتے ہیں ورنہ شرعا انہیں مجبور نہیں کیا جاسکتا ۔
6۔وراثت کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ شوہر کے کل مال کے 88 حصے کیے جائیں گے جن میں سے دونوں بیویوں کو 11 ،11 حصے(12.5 فیصد فی کس)،تینوں بہنوں میں سے ہر ایک کو 6،6 حصے (6.818 فیصد فی کس )اور چاروں بھائیوں میں سے ہر ایک کو 12،12 حصے(13.636 فیصد فی کس)ملیں گے ۔
صورت تقسیم درج ذیل ہے :
22×4=88
| دو بیویاں | تین بہنیں | چار بھائی |
| 4/1 | عصبہ | |
| 1 | 3 | |
| 1×22 | 3×22 | |
| 22 | 66 | |
| 11+11 | 6+6+6 | 12+12+12+12 |
ہندیہ(6/90) میں ہے:
ولا تجوز الوصية للوارث عندنا إلا أن يجيزها الورثة.
شامی (6/760) میں ہے:
(ثم) تقدم (ديونه التي لها مطالب من جهة العباد)
المبسوط للسرخسی (11/154) میں ہے:
(فشركة الملك) أن يشترك رجلان في ملك مال، وذلك نوعان: ثابت بغير فعلهما كالميراث، وثابت بفعلهما، وذلك بقبول الشراء، أو الصدقة أو الوصية. والحكم واحد، وهو أن ما يتولد من الزيادة يكون مشتركا بينهما بقدر الملك
شامی (4/326) میں ہے:
حاصله أن الشركة الفاسدة إما بدون مال أو به من الجانبين أو من أحدهما، فحكم الأولى أن الربح فيها للعامل كما علمت، والثانية بقدر المال، ولم يذكر أن لأحدهم أجرا؛ لأنه لا أجر للشريك في العمل بالمشترك كما ذكروه في قفيز الطحان والثالثة لرب المال وللآخر أجر مثله
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved