- فتوی نمبر: 13-73
- تاریخ: 16 جنوری 2019
- عنوانات: خاندانی معاملات > منتقل شدہ فی خاندانی معاملات
استفتاء
آپ سے یہ پوچھنا تھا کہ زید کی عمر 45سال ہے اور اس نے دوسری شادی کی ہے۔زید کی پہلی بیوی سے چار بچے ہیں ایک شادی شدہ ہے اور باقی مدارس میں پڑھ رہے ہیں ۔زید اپنی دوسری بیوی کے ساتھ دوبئی میں رہتا ہے دوبئی میں اس کا گھر بجلی وپانی وعلاج فری ہے ۔دوسری بیوی کا ایک بیٹا ہے سات ماہ کا پہلی بیوی پاکستان میں رہتی ہے تین بچوں کے ساتھ ان سب کو علاج بجلی کا بل گیس کا بل ادا کرنا پڑتا ہے۔
وضاحت مطلوب ہے:
۱۔ پاکستان والی فیملی اپنا بل خود اپنی جیب سے ادا کرتی ہے یا خاوند کے دئیے ہوئے اخراجات سے کرتی ہے؟
۲۔ یہ سوال زید کی جانب سے ہے یا کسی ایک فیملی کی جانب سے ؟
۳۔ کیا شوہر دونوں بیویوں کو خرچہ برابر دیتے ہیں یا کم وزیادہ؟
جواب وضاحت:
۱۔ خاوند خرچہ دیتے تو ہیں لیکن ہمارا خرچہ زیاد ہ ہوتا ہے وہ پیسے کم بھیجتے ہیں ۔
۲۔ یہ سوال زید کی پہلی بیوی (فیملی)کی طرف سے ہے۔
۳۔ برابر خرچہ دیتے ہیں دونوں کو ۔کمائی کے تین حصے بناتے ہیں ایک اپنے لیے دوسرا پہلی بیوی کے لیے تیسرا دوسری بیوی کے لیے ۔
آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ زید اپنی کمائی کی تقسیم کیسے کرے ؟آپ سے گزارش ہے کہ تفصیلی جواب دیں ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
دو بیویوں کے خرچے کی مقدار میں برابر ی کرنا ضروری نہیں بلکہ ہر بیوی کو اس کی حالت اور ضروریات کو ملحوظ رکھ کر خرچہ دینا ضروری ہے ۔لہذا اگر پاکستان والی فیملی کے حقیقی اخراجات واقعتا زیادہ ہیں تو زید کو اسی تناسب سے خرچے میں اضافہ کرنا ضروری ہے ۔ اس کے لیے زید کا اختیار کردہ طریقہ ناکافی ہے۔
لمافي الشامية(375/4)
يجب ان يعدل فيه)اي البيتوتة)(وفي الملبوس والماکول)قوله اي :والسکني ولوعبربالنفقة لشمل الکل۔۔۔۔۔۔وقد علمت ان العدل في کلامه بمعني عدم الجور لا بعني التسوية فانها لا تلزم في النفقة مطلقا۔۔۔قال في البحر:قال في البدائع :يجب عليه التسوية بين الحرتين والامتين في الماکول والمشروب والملبوس والسکني والبيتوتةهکذا ذکر الولوالجي۔
والحق انه علي قول من اعتبر حال الرجل وحده في النفقة واما علي القول المفتي به اعتبارحالهما فان احداهما قد تکون غنية ولاخري فقيرة فلايلزم التسوية بينهما مطلقا في النفقة اه
© Copyright 2024, All Rights Reserved