• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

بیوی کے ورثاء میں شوہر، دو بیٹے اور والدین ہیں

استفتاء

ایک شخص کی بیوی فوت ہو گئی  اسکے  ورثاء میں اس کا شوہر،  دو بیٹے  اور والدین حیات ہیں ۔مرحومہ کے تین بھائی  اور دو بہنیں بھی  ہیں ۔اس کے والدین نے ابھی تک جائیداد تقسیم نہیں کی۔ سوال یہ ہے کہ:

1۔ مرحومہ کے والدین کی جائیداد میں شوہر اور بچوں  کا حصہ ہے ؟

2۔شادی کے موقع پر اور بعد میں اس کے والدین کی طرف سے جو تحائف اور جہیز کا سامان اور زیور ملا ہے اس کی تقسیم کا کیا طریقہ کار ہے ؟اور ورثاء کو کس حساب سے ملے گا؟

3۔اس کی شادی کو 5 سال ہو گئے ہیں اب اشیاء کی قیمتیں کیسے متعین  ہوں گی ؟

4۔اسکےذمے روزوں کا فدیہ ہے وہ کس مال سے ادا ہو گا ؟نیز یہ روزے کئی سال سے میت کے ذمے  ہیں اس کی قیمت کا تعین کیسے ہو گا ؟

وضاحت مطلوب ہے: مرحومہ نے روزوں کے فدیے کی وصیت کی تھی یا نہیں؟

جواب وضاحت: وصیت نہیں کی تھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔مرحومہ کے والدین چونکہ حیات ہیں اس لیے مرحومہ کے شوہر اور بچوں کا مرحومہ کے  والدین کی جائیداد میں شرعاً  کوئی حصہ نہیں ہے، البتہ مرحومہ کے والدین اپنی بیٹی کے بچوں کو اپنی خوشی سے کچھ دینا چاہیں  یا ان کے لیے کچھ وصیت کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔

2۔سوال میں مذکور چیزوں کی وراثت کی تقسیم کے وقت جو مالیت بنتی ہے اس کے مطابق چیزوں کو باہم تقسیم کر لیا جائے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی چیز ایک وارث رکھ کر دوسرے ورثاء کو ان کے حصے کی قیمت دیدے۔

مذکورہ صورت میں مرحومہ کی کل وراثت کو 24 حصوں میں تقسیم کیا جائے گا جن میں سے مرحومہ کے شوہر کو 6 حصے(25 فیصد) اور مرحومہ کے بیٹوں میں سے ہر ایک کو 5 حصے(20.83فیصد فی کس) اور مرحومہ کی ماں کو 4 حصے(16.67فیصد) اور باپ کو 4 حصے(16.67فیصد) ملیں گے۔

صورت تقسیم درج ذیل ہے:

12×2=24

شوہر2بیٹےماںباپ
4/1عصبہ6/16/1
3522
3×25×22×22×2
610

5+5

44

3۔وراثت کی تقسیم کے وقت  ان اشیاء کی مارکیٹ   کے لحاظ سے جو قیمت ہوگی اس کے مطابق تقسیم ہوں گی۔

4۔مرحومہ نے چونکہ روزوں کا فدیہ دینے کی وصیت نہیں کی تھی ،  اس لیے ورثاء پر ان کی طرف سے روزوں کا فدیہ دینا لازم نہیں لیکن اگر ورثاء  فدیہ دینا چاہیں اور روزوں کی صحیح تعداد معلوم نہ ہو تو احتیاطاً جتنے زیادہ روزوں کی قضاء ہونے کا غالب گمان ہو اس کا فدیہ دے   سکتے ہیں پھر  جو ورثاء فدیہ دینا چاہیں بشرطیکہ وہ عاقل، بالغ ہوں  تو وہ چاہے اپنے وراثتی حصہ میں سے دیں یا الگ سے اپنے مال میں سے دیں دونوں طرح کرسکتے ہیں۔

نوٹ: ایک روزے کا فدیہ  صدقہ فطر کی مقدار کے برابر ہے یعنی ہر روزے کے بدلے کسی مسکین کو دو وقت کا کھانا کھلائے یا  پونے دو کلو گندم یا اس کی موجودہ  قیمت مسکین کو دے۔

تنویر الابصار(419/1) میں ہے:

(وفدى) لزوما (عنه ولیه) ……… (بوصيته من الثلث) …….. (وإن)لم يوص و (تبرع وليه به جاز).

شامی(525/10) میں ہے:

وشروطه: ثلاثة: ‌موت ‌مورث ‌حقيقة، أو حكما كمفقود، أو تقديرا كجنين فيه غرة ووجود وارثه عند موته حيا حقيقة أو تقديرا كالحمل والعلم بجهة إرثه۔

مسائل بہشتی زیور(1/419) میں ہے:

اگر کسی نے وصیت نہیں کی مگر ولی نے اپنے مال سے فدیہ دے دیا تب بھی خدا سے امید رکھے کہ شاید قبول کر لے اور اب روزوں کا مواخذہ نہ کرے گا اور بغیر وصیت کے خود مردے کے مال میں سے فدیہ دینا جائز نہیں ہے۔اسی طرح اگر تہائی مال سے زیادہ ہو جائے تو باوجود وصیت کے بھی زیادہ دینا سب وارثوں کی رضامندی کے بغیر جائز نہیں۔ہاں اگر سب وارث خوشی سے راضی ہو جائیں تو دونوں صورتوں میں فدیہ دینا درست ہے لیکن نابالغ وارث کی اجازت کا شرع  میں کچھ اعتبار نہیں ہے۔بالغ وارث اپنا حصہ جدا کر کے اس میں سے دے دیں تو درست ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved