• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیوی کو ڈرانے کےلیے غصہ میں کہا’’میں نے تم کو فارغ کیا‘‘طلاق ہوئی یا نہیں

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

گذارش ہے کہ ایک دفعہ جھگڑے کے دوران غصے میں، میں نے اپنی بیوی کو  ایک مرتبہ کہا ’’میں نے تم کو فارغ کیا‘‘ میں نے ڈرانے کے لیے یہ لفظ بولا تھا۔ کیا اس صورت میں میرے نکاح پر کوئی اثر واقع ہوا ہے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں بیوی کے حق میں ایک طلاق بائن واقع ہوچکی  ہے جس کی وجہ سے نکاح ختم ہوگیا ہے لہٰذا میاں بیوی اکٹھا رہنا چاہیں تو گواہوں کی موجودگی میں نئے حق مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہے۔

توجیہ:شوہر کے یہ الفاظ کہ ’’میں نے تمہیں فارغ کیا‘‘  کنایاتِ طلاق کی تیسری قسم کے الفاظ ہیں جن سے غصہ کی حالت میں بیوی کے حق میں نیت کے بغیر بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔

در مختار مع رد المحتار (4/521) میں ہے:

(وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا

قوله: (توقف الأولان) أي ما يصلح ردا وجوابا وما يصلح سبا وجوابا ولا يتوقف ما يتعين للجواب ………….. لأنها [أي ما يتعين للجواب] وإن احتملت الطلاق وغيره أيضا لكنها لما زال عنها احتمال الرد والتبعيد والسب والشتم اللذين احتملتهما حال الغضب تعينت الحال على إرادة الطلاق فترجح جانب الطلاق في كلامه ظاهرا، فلا يصدق في الصرف عن الظاهر، فلذا وقع بها قضاء بلا توقف على النية كما في صريح الطلاق إذا نوى به الطلاق عن وثاق

نیز فتاویٰ شامی (526/4) میں ہے:

المرأة كالقاضي لا يحل لها أن تمكنه إذا علمت منه ما ظاهره خلاف مدعاه. فتح

احسن الفتاویٰ (ج۵، ص۱۸۸) میں ہے:

سوال: کوئی شخص بیوی کو کہے ’’تو فارغ ہے‘‘ یہ کونسا کنایہ ہے؟ اگر اس بات کو دیکھا جائے کہ فارغ کا لفظ اپنے مفہوم وموارد میں خلیہ وبریہ کے مقارب ہے، کہا جاتا ہے یہ مکان یا برتن فارغ ہے، یہاں خالی کے معنی میں استعمال ہوا اور کہا جاتا ہے کہ فلاں مولوی صاحب مدرسہ سے فارغ کر دیے گئے ہیں یا ملازمت سے فارغ ہیں یہاں علیحدگی اور جدائی کے معنی میں استعمال ہوا ہے جو بائن اور بریہ کا ترجمہ ہے یا اس کے مقارب ہے اس کا تقاضہ یہ ہے کہ فارغ کے لفظ سے خلیہ و امثالہا کی طرح حالتِ غضب میں طلاق نہ ہو لیکن اگر اس امر کو دیکھا جائے کہ ہمارے عرف میں فارغ کا لفظ سبّ کے لیے مستعمل نہیں، صرف جواب کو محتمل ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ حالت غضب میں طلاق ہو جائے ولولم ینو، لیکن اگر یہ لفظ رد کا احتمال بھی رکھے تو پھر ہر حالت میں نیت کے بغیر طلاق نہ ہوگی۔ یہ بندہ کے اوہام ہیں حضرت والا اپنی رائے سے مطلع فرمائیں۔ بینوا توجروا

الجواب باسم ملہم الصواب: بندہ کا خیال بھی یہی ہے کہ عرف میں یہ لفظ صرف جواب ہی کے لیے مستعمل ہے اس لئے عند القرینہ  بلانیت بھی اس سے طلاق بائن واقع ہو جائے گی۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved