• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیوی کو ڈرانے کے لیے بیوی کے فعل پر طلاق کو معلق کرنا

استفتاء

محترم مفتی صاحب! میرے ساتھ چند مسائل در پیش ہیں، جو طلاق سے متعلق ہیں:

مسئلہ نمبر 1: آج سے ایک سال پہلے میرے شوہر نے مجھے یہ کہہ دیا تھا کہ "اگر تو میری اجازت کے بغیر گھر سے باہر نکلی تو تجھے ایک طلاق ہو جائے گی”۔ اس کے بعد میں اپنے شوہر کی اجازت کے ساتھ گھر سے نکلا کرتی تھی، ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ میں نے بٹن لینے جانا تھا، میں نے فون کر کے اپنے شوہر سے اجازت لی، انہوں نے اجازت دے دی، بٹن لے کر جب میں گھر میں داخل ہوئی تو دیکھا کہ میرے بچے صحن میں رُو رہے تھے، میں دوبارہ باہر نکلی اور سامنے کی دکان سے بچوں کے لیے چیز لے آئی۔ مسئلہ یہ ہے کہ دوبارہ باہر جانے کے لیے میں نے اجازت نہ لی تھی۔ میں نے مفتی صاحب سے پوچھا تو انہوں نے کہا طلاق ہو گئی ہے، جبکہ مفتی مختار صاحب نے کہا کہ طلاق نہیں ہوئی، کیونکہ ان کے مطابق میرے شوہر نے یہ نہیں کہا تھا کہ جب کبھی باہر نکلی تو تجھے طلاق ہے۔ اس لیے ایک مرتبہ اجازت لینے سے ان کی بات پوری ہو چکی، تو اب دوبارہ باہر نکلنے کے لیے کبھی اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔ اس لیے میں سمجھ نہیں پا رہی ہوں کہ مجھے طلاق ہوئی ہے یا نہیں؟

شوہر کا بیان

میری بیوی سیما کا گھر سے آنا جانا بہت زیادہ ہو گیا تھا، مطلب کہ گھر سے باہر جانا بڑھتا جا رہا تھا، تو میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ "تم اگر میری اجازت کے بغیر باہر جاؤ گی تو تم کو ایک طلاق ہو جائے گی”۔ میری بیوی بٹن لینے جانا تھا، اس نے مجھے فون کیا کہ میں باہر جاؤ؟ تو میں نے کہا جاؤ، لیکن جب وہ بٹن لے کر آ گئی تو بچے رُو رہے تھے، تو وہ شایان کو چیز دلوانے باہر چلی گئی، اور اس دفعہ اس نے نہیں پوچھا۔ کیا طلاق ہو گئی ہے یا نہیں؟ میری نیت یا سوچ طلاق دینے کی نہیں تھی، اس لیے کہا تھا کہ گھر سے باہر کم ہو جائے۔

شرط کے وجود میں زوجین کا اختلاف

بیوی کا بیان

مسئلہ نمبر 2: ہم دو بہنوں کی ایک ہی گھر میں شادی ہوئی ہے۔ اوپر والے واقعہ کے ایک مہینہ بعد مجھے میرے شوہر نے کہا کہ "تیری بہن کہتی ہے کہ اس کو میری ماں کے کمرے میں نیند نہیں آئے گی”، میں نے ان سے کہا کہ میری بہن نے ایسا کچھ بھی نہیں کہا، آج تو میں گھر پر ہی تھی، میرے سامنے ایسا کچھ بھی نہیں کہا، اور تم تو اس وقت نہیں تھے، جب میری بہن تمہاری امی کے کمرے میں آئی تھی، انہوں نے کہا کہ تم کچھ میں تھی اور میں وہیں کمرے میں تھا۔ انہوں نے کہا کہ "میں وہیں تھا، اور اگر میں وہاں نہیں تھا تو مجھے دوسری طلاق ہو جائے گی”۔ میں نے اپنی بہن سے پوچھا تو اس نے کہا کہ وہ تو وہاں نہیں تھا، جبکہ میرے شوہر کے بھائی اور ان کی امی کہتی ہیں کہ وہ وہیں تھے، اور میرے شوہر بھی یہی  کہتے ہیں کہ وہ وہیں تھے، ان سب کے لحاظ سے مجھے طلاق نہیں ہوئی، جبکہ فقط میری بہن کہتی ہے کہ وہ نہیں تھے، جس کے حساب سے مجھے دوسری طلاق ہو گئی ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ آیا مجھے طلاقِ دوئم ہوئی یا نہیں؟

بہن کا بیان

میں*** ولد*** اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر یہ بات کہتی ہوں کہ میری بہن سیما کے شوہر ***جس واقعہ سے متعلق یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ اس وقت اپنی امی کے کمرے میں موجود  تھے، میرے علم کے مطابق وہ اس موقعہ پر اپنی امی کے کمرے میں موجود نہ تھے، اور نہ ہی مجھے اس کا علم ہے کہ وہ اس وقت امی کے کمرے کے علاوہ کہیں اور موجود تھے، حالانکہ اس موقعہ پر میں خود ***کی امی یعنی اپنی ساس کے کمرے میں موجود تھی اور اس وقت میرے شوہر ***اور ان کی امی یعنی میری ساس بھی اسی کمرے میں موجود تھے، ہم تین کے علاوہ کوئی اور شخص اس کمرے میں موجود نہ تھا۔

شوہر کا بیان

میں ***ولد *** اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر یہ بات کہتا ہوں کہ جس واقعہ سے متعلق میں نے یہ بات کہی ہے کہ "اگر میں جھوٹ بولوں تو تم کو دوسری طلاق ہو جائے"۔ اس واقعہ میں  اس موقعہ پر میں اپنی امی کے کمرے میں ہی تھا اور میرے علاوہ اس کمرے میں اس وقت میرا بھائی ***، میری بھابھی نصرت اور میری والدہ بھی تھیں۔

شوہر کے بھائی کا بیان

میں *** والد سید***، اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جس واقعہ سے متعلق میرے بھائی ***نے یہ کہا ہے کہ وہ اس واقعہ میں اپنی امی کے کمرے میں موجود تھے، ان کی یہ بات صحیح ہے، اور میں اس کا گواہ ہوں کہ واقعی وہ یعنی ***اس وقت اپنی امی کے کمرے میں موجود تھے، اور ان کے علاوہ اس وقت اس کمرے میں میں خود اور میری بیوی نصرت اور میری والدہ بھی موجود تھے۔

طلاق دینے کے بعد طلاق کا نوٹس بھیجنا

مسئلہ نمبر 3: میرے دو بچے ہیں، اور میری بہن کے تین بچے ہیں، جو ابھی بہت چھوٹے ہیں۔ ہم دونوں بہنوں کو ہی سسرال والوں نے ستانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے، شادی کو سات سال ہو گئے ہیں، اب برداشت کی حد ہو گئی ہے، ہم دونوں بہنیں اپنے ماں باپ کے گھر آ کر بیٹھی ہوئی ہیں، ہمیں آئے ہوئے بھی دو مہینے ہو گئے ہیں، ہمارا مطالبہ ہے کہ ہم اپنا کھانا پکانا علیحدہ کرنا چاہتے ہیں، سسرال والے اس بات کے لیے تیار نہیں، جمعے والے دن مجھے میرے شوہر  نے طلاق کا پہلا نوٹس بھیجا ہے، جس کی فوٹو کاپی میں آپ کو بھیج رہی ہوں۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر تو مجھے پہلی دو طلاقیں ہو چکی ہیں تو اس حساب سے نوٹس والی تیسری طلاق ہو گی؟ اب میرا میرے شوہر کے پاس جانے کی کوئی صورت باقی ہے یا نہیں؟ نیز اگر مجھے طلاق ہو چکی ہے تو کس طرح عدت گذارنی ہو گی۔

ماں باپ کے گھر بیٹھے رہنے سے خود بخود طلاق  کا وقوع

مسئلہ نمبر 4: میری بہن کو طلاق نہیں دی گئی کبھی بھی، مگر وہ ڈھائی مہینے سے گھر آکر بیٹھی ہوئی ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ لڑائی کی صورت میں کتنے دن کی مدت ہے؟ کیا تین مہینے بعد اسے خود بخود گھر بیٹھے طلاق ہو جائے گی، یا وہ بہتری کے لیے مزید انتظار کر سکتی ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مسئلہ نمبر1 :  مذکورہ صورت میں  عورت کے  بغیر اجازت باہر جانے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

لأن التعلیق فی هذه الصورة بفعل المرأة والجزاء بفعل مضارع و إذا کان التعلیق بفعل المرأة والجزاء بفعل مضارع، فالمدار علی  نیة الزوج. ولم ینو الزوج في هذه الصورة نیة الطلاق بل نوی التخویف فتعتبر نیته ولا یقع الطلاق. والتفصیل في إمداد الأحکام (ج2ص514)

مسئلہ نمبر 2 : مذکورہ صورت میں شوہر کا دعویٰ ہے کہ میں اس موقع پر اپنی امی کے کمرے میں موجود تھا، شوہر کے پاس اپنے دعوے کی تائید میں دو گواہ موجود ہیں (1)شوہر کی والدہ (2)شوہر کا بھائی۔  والدہ کی گواہی اپنے بیٹے کے حق میں قبول نہیں،  اور اکیلے بھائی کی گواہی کافی نہیں۔ اسی طرح شوہر کے اس موقع پر اپنی امی کے کمرے میں موجود نہ ہونے پر آپ  کی بہن کی گواہی ہے،  اکیلی بہن کی گواہی بھی کافی نہیں۔  اس لئے گواہوں کی بنیاد پراس مسئلہ کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔  لہذا  جب میاں بیوی دونوں میں سے کسی کے پاس گواہ نہ ہوں یا ہوں لیکن ان کی گواہی یا تو معتبر نہ ہو یا ان کی اکیلے کی گواہی کافی نہ ہو تو ایسی صورتحال میں شوہر کا قول معتبر ہو گا، لیکن شوہر کو اپنی بات پر اپنی بیوی کے سامنے قسم دینی پڑے گی۔ فتاویٰ  شامی میں ہے:

فإن اختلفا في وجود الشرط. و في الشامية قوله: (في وجود الشرط) أي أصلاً أو تحققاً … أي اختلفا في وجود أصل التعليق بالشرط أو في تحقق الشرط بعد التعليق فالقول له مع اليمين لإنكاره الطلاق …. إلا إذا برهنت. (4/ 602- 601، مكتبہ رشیدیہ كوئٹہ)

اور اگر مذکورہ صورت میں گواہوں کے بیان کا اعتبار بھی کریں تو پھر بھی آپ کے لیے اپنی بہن کے بیان کے مقابلے میں شوہر کے بھائی اور والدہ کا بیان مقدم ہو گا، کیونکہ ان کی تعداد زیادہ ہے۔ چنانچہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

و كذلك إذا أخبر بأحد الأمرين رجلان و بالآخر رجل و امرأتان يؤخذ بخبر رجل و امرأتين لما فيه من زيادة العدد، كذا في الذخيرة. 5/ 310

مسئلہ نمبر3: یہ مسئلہ فی الحال زیرِ غور ہے کہ اس نوٹس سے طلاق ہوئی یا نہیں؟ بہر حال اگر اس نوٹس طلاق ہو گی بھی تو ایک رجعی طلاق ہو گی، جس میں عدت کے اندر اندر رجوع کر کے میاں بیوی اکٹھے رہ سکتے ہیں۔

مسئلہ نمبر4:  طلاق خود بخود نہیں ہوتی ،خواہ عورت کتنا ہی عرصہ اپنے ماں باپ کے گھر کیوں نہ بیٹھی رہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ آپ کی بہن کو تو کوئی طلاق نہیں ہوئی۔ اور آپ بھی فی الحال اپنے شوہر کے ساتھ رہ سکتی ہیں۔ باقی آپ کو ایک طلاق ہوئی یا  وہ بھی نہیں ہوئی؟ یہ زیرِ غور ہے۔فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved