• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیوی کو حصہ تقسیم کرنے کا کلی اختیار دینا

استفتاء

کیا اس پوری وصیت کی شرعاً کوئی حیثیت ہے یا نہیں؟ اگر اس وصیت کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں تو اس کی کیا وجوہات ہیں؟ اگر اس وصیت کی شرعاً حیثیت نہ ہو تو کیا کیا جائے؟ کیا اس وصیت کے اعتبار سے والدہ کو جائیداد کا کلی اختیار حاصل ہوگا یا نہیں؟ اگر کلی اختیار کے بجائے ایک تہائی حصہ کا اختیار حاصل ہوتا ہے تو کیا ایک تہائی حصہ کا اختیار حاصل ہوگیا یا نہیں؟ جیسا کہ وصیت میں درج ہے کہ والدہ نے اپنے ورثاء کی رقم سے 90000 روپے بڑے بھائی کی شادی میں خرچ کیے تو کیا اب یہ رقم بڑے بھائی کو وراثت کا حصہ دیتے وقت اس میں سے والدہ کے بقول کٹوتی کرنی چاہیے یا نہیں؟

مندرجہ بالا سوالات کے جوابات لینے کی وجہ یہ ہے کہ جو وصیت والد محترم مرحوم نے لکھی ہے بڑے بھائی کے بقول اس وصیت کی شرعاً اور قانوناً کوئی حیثیت نہیں۔ بڑے بھائی کے بقول اس وصیت کی شرعاً اور قانوناً کوئی بھی حیثیت اس لیے نہیں کہ والد محترم نے یہ وصیت والدہ کی تسلی کے لیے لکھی اور دوسرے یہ کہ یہ وصیت ایک سادہ صفحہ پر لکھی ہے۔ اور گواہ بھی موجود نہیں۔ اور بڑے بھائی نے اس وصیت کے بارے میں مکتب بریلویت کے علماء سے ( یہ سب وجوہات جو مندرجہ بالا بیان کی ہیں) تحریری کے بجائے زبانی ہی پوچھیں ہیں۔ اس لیے ان اختلافات کی وجہ سے مندرجہ بالا سوالات کے جوابات لینے کی نوبت پیش آئی ہے۔

وصیت نامہ

من کہ خورشید انور ۔۔۔۔ باہوش و حواس یہ تحریر لکھ رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مکان مذکورہ جو کہ سات مرلے اراضی پر تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کی تعمیر میں وقتاً فوقتاً اضافہ ہوتا رہا۔ کیونکہ شروع میں صرف دو کمرے تعمیر کیے گئے تھے۔ اور اس وقت یہ مکان دو منزلہ ہے اور دس کمروں، پانچ باتھ روم، تین باورچی خانوں پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ ایک کمرہ سیڑھیوں کے ساتھ بالکونی پر بھی تعمیر شدہ ہے۔ مکان کی تعمیر کے لیے سات مرلے کا پلاٹ خریدا گیا تھا۔ اس سے قبل ایک پلاٹ ساڑھے تین مرلہ ساندہ کے علاقے بند روڈ کے قریب خریدا گیا جسے فروخت کر کے موجودہ مکان والا سات مرلہ پلاٹ خریدا گیا۔ اولین پلاٹ کی خرید کے وقت رخسانہ شہناز ( میری بیوی) نے اپنا زیور حوالے کیا جسے فروخت کرکے ساندہ والا پلاٹ خریدا گیا تاکہ اپنے لیے اور اپنی اولاد کی رہائش کے لیے مکان بنایا جاسکے اس طرح مکان کی تعمیر کے لیے پلاٹ کا آغاز رخسانہ شہناز کے زیور کی فروخت سے ہوا اگر چہ زیور آج تک دوبارہ نہ بن سکا۔ میرے پاس اس وقت پلاٹ خریدنے کے لیے رقم نہ تھی۔ لہذا زیور بیچ کر اور پلاٹ خرید کر ہم اس قابل ہوئے کہ اس پر دو کمرے تعمیر کر کے اس میں رہائش اختیار کرسکیں۔ اور کرائے کے مکان سے بچ سکیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ مکان بنانے کی ہمت دی اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکرادا کیا جائے وہ کم ہے۔

اس مکان کی تعمیر میری بیوی رخسانہ شہناز نے اپنے ہاتھوں سے کی ہے۔ شروع شروع میں کمروں کے فرش اس نے اپنے ہاتھوں سے بنائے۔ کمروں میں اینٹیں تک خود لگائیں۔ اس طرح یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اگرچہ یہ مکان میرے نام ہے لیکن در حقیقت یہ مکان رخسانہ شہناز کا ہے جس نے اپنا زیور ۔۔۔ اور پھر ان کی تعمیر میں اپنی ۔۔۔ و جسمانی توانائی صرف کی ہے۔ لہذا اس مکان کی حقیقی مالک وہی ہے بلکہ میری تمام جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کی حقیقی وارث ہے۔

علاوہ ازیں ایک پلاٹ تقریباً پونے چھ مرلے کنگنیاں ۔۔۔گوجرانوالہ میں خریدا گیا ہے۔ وہ اس لیے رکھا ہوا ہے کہ اسے فروخت کرکے بیٹی کی شادی کے اخراجات پورے کیے جاسکیں۔ لہذا وہ پلاٹ اسی مقصد کے لیے استعمال ہوگا۔ اس میں سے کسی کو حصہ نہیں دیا جائےگا۔ اور اس کی مالک بھی میری بیوی رخسانہ شہناز ہوگی۔

یہ بھی واضح کرتا ہوں کہ میری وفات کے بعد دفتر کی ملنے والی ہر قسم کی رقم ( امداد) کی وارث صرف اور صرف میری رخسانہ شہناز ہوگی اس پر اس کو کلی اختیار ہوگا اور کوئی میری اولاد میں سے کوئی بھی اس میں کسی قسم کا حصہ طلب نہیں کرسکے گا۔

اب اپنی اولاد کے باب میں کچھ وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔ اب تک دو بیٹوں کی شادی کی جاچکی ہے۔ ماشاء اللہ دونوں اولاد والے ہیں۔ دونوں کو زیور بنا کر دیا ہے۔ جبکہ چھوٹے بیٹوں کے لیے اس تک کچھ نہیں بن سکا۔

بڑے بیٹے برجیس انور کی شادی دو مرتبہ ہوئی اور اس کی شادی پر اس کی ماں نے ورثہ کی رقم سے نوے ہزار روپے خرچ کیے۔ جبکہ چھوٹے بیٹے شموس انور کی شادی پر اس کی ماں نے اپنے ورثہ کی رقم سے تیس ہزار روپے خرچ کیے۔ بڑے بیٹے کی موجودہ بیوی نے اس کی ماں کی توہین، بے عزتی اس کے سامنے کی اور وہ خاموش رہا اور یہ بات نافرمانی کے زمرے میں آتی ہے۔ اس نے اپنی ماں کا توہین مجروح کیا اور اسے اس کا احساس تک نہ ہوا۔ اور وہ یہ سمجھتا رہا کہ جو کچھ ہوا وہ درست ہے۔ اتنا کچھ کرنے کے باوجود اس کی بیوی میری جائیداد میں سے حصے کی امید رکھے یہ کیسے ممکن ہے۔

دوسرے بیٹے شموس انور نے جگہ چھوڑنے کے بعد اپنی ماں سے اور اپنی بہن سے جو رویہ اختیار کیے رکھا وہ سارا میرے سامنے ہے۔ اس کے لیے مجھے کسی شہادت کی ضرورت نہیں بلاشبہ اس نے اپنی ماں کی توہین کی اس کے باوجود اس کی ماں نے جس انداز سے اسے واپس بلانے اور ملنے کی کوشش کی وہ سب میرے سامنے ہے وہ انتہائی احمق ۔۔۔ ان دونوں کے توہین آمیز رویے کے باعث اگر میں چاہتا تو ان کو وراثت میں سے عاق کرسکتا تھا لیکن میں نے ایسا نہیں کیا اور چاہا کہ اپنی جائیداد کی ملکیت کا کلی اخیتار اپنی بیوی کو دے دیا جائے وہ جسے چاہے حصہ دے، جسے چاہے نہ دے۔ اسے فروخت کرنے کا تمام اختیار بھی اسی کے پاس رہے گا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جو پلاٹ اور مکان آپ کی والدہ کے پیسوں سے خریدا اور بنایا گیا وہ والدہ کا ہے وہ والد کی وراثت نہیں۔ اس کے علاوہ جو منقولہ و غیر منقولہ اثاثے آپ کے والد زندگی میں اپنی ملکیت پہ چھوڑ کر فوت ہوئے تھے وہ ان کے تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے بقدر تقسیم ہوں گے ان حصوں کے بارے میں وہ والدہ کو وصیت کرنےکا اختیار نہیں رکھتے اور نہ وہ وصیت معتبر ہوگی۔ شریعت کا اصول ہے کہ ’’ لا وصية لوارث ‘‘اور یہاں دیگر ورثاء ( بیٹے) بھی راضی نہیں۔ البتہ باپ کی خواہش کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر اولاد ساری جائیداد اپنی ماں کو دیدے اور ماں کی فرمانبرداری کرے تو ہوسکتا ہے کہ ماں اپنی زندگی میں بچوں میں تقسیم کر کے ہدیہ دیدے یا ماں کے وارث ہوکر لے لیں گے۔

دفتر کی طرف سے ملنے والی یکمشت رقم بھی وراثت میں شامل ہوگی۔ البتہ پنشن جو ہر ماہ ملتی ہے اس میں ان کے زیر کفالت افراد حقدار ہوں گے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved