• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیوی کو ’’جا ،میں نے تجھے چھوڑا‘‘ کاحکم اورمسئلہ طلاق ثلاثہ

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

بیوی کا بیان:

(یکم مارچ 2020) دوپہر کو بچے بچے پکنک پر جا رہے تھے، میں نہیں جا رہی تھی اس لیے بچوں کے جانے کی تیاری کر رہی تھی۔ کبیراحمد کا ایک دن پہلے سے ہی موڈ خراب تھا بالکل بات نہیں کر رہے تھے، میں نے دو سے تین مرتبہ صبح ان سے بات کرنے کی کوشش کی مگر انہوں نے میرا ہاتھ جھٹک کر پیچھے کردیا کیونکہ ہمیشہ جب بھی ان کو منانے کی کوشش کی ان کا رویہ اور جارحانہ ہوجاتا اور پھر غصے میں بے ہودہ ترین باتیں اور گندی ترین گالیاں دیتے ہیں اور یہ بھی نہیں سوچتے کہ میں کس کے سامنے یہ باتیں کر رہا ہوں۔ انکے موڈ خراب ہونے پر میں نے بچوں کی وجہ سے خاموشی اختیار کی کیونکہ گھر میں بچے آئے ہوئے تھے اس لئے کہ یہ بعد میں خود ہی صحیح ہو جاتے تھے۔ اتوار یکم مارچ کو بھی میں نے ناشتہ بھی دیا اور دوبارہ چائے بھی دی، بات کئے بغیر کبیر احمد نے ناشتہ بھی کیا اور دوسری مرتبہ چائے بھی پی۔ ہمیشہ کی طرح یہ ہر اتوار کو اپنے حضرت جی کے پاس جاتے ہیں اور گھر سے جانے سے پہلے تیسرا چائے کا کپ ضرور پیتے ہیں، میں نے جب تیسری مرتبہ بغیر بات کیے چائے کا کپ لاکر رکھا تو کبیر احمد نے میرے نواسے سے کہا کہ جب میں تمہاری نانی کو طلاق دے کر نکالوں گا تب انہیں پتہ چلے گا۔ بڑے بیٹے نے سمجھانے کی کوشش کی کہ پاپا آپ بچوں سے کیوں یہ باتیں کر رہے ہیں؟ اس بات سے وہ اور غصے میں آگئے اور بچوں کے سامنے میرے کریکٹر کو گندا کیا اور جتنی بے ہودہ باتیں اور گندی ترین گالیاں دے سکتے تھے ہمیشہ کی طرح دے دیں، پھر چھوٹا بیٹا جنید آگیا اس نے پوچھا کہ کیا ہوگیا ہے میں نے جنید کو ساری بات بتائی کیونکہ یہ بار بار یہی بات کہہ رہے تھے کہ پورے خاندان کو بلاکر تجھے طلاق دونگا تینوں بیٹوں میں گرما گرمی ہوگئی، اس وقت میرے منہ سے شدید غم اور غصے میں یہی نکلا اپنا سینا پیٹ کر میں نے کہا ’’لاؤ دے دو مجھے طلاق‘‘ دو سے تین مرتبہ میں نے کہا پھر کبیر احمد نے مجھے دھکا دیا اور جنید نے کبیراحمد کا پیر پکڑ کر نیچے دھکیلا، دونوں میں آپس میں بہت لڑائی شروع ہو گئی تھی۔ صہیب نے کبیر احمد کو پکڑنے کی کوشش کی، اس وقت میں نے دوبارہ کہا کہ ’’چھوڑ دو مجھے، دے دو مجھے جو تم دینا چاہتے ہو دے دو‘‘ اس وقت کبیر احمد نے دونوں بیٹوں کے سامنے کہا کہ ’’جا، دے دی جا دے دی‘‘ یہ الفاظ دو مرتبہ کہے گئے اور میری زندگی ان کے ساتھ ختم ہوگئی۔ اس کے بعد بھی کبیر احمد نے بچوں سے یہی کہا کہ میں نے نہیں دی، اس نے خود مانگی تھی۔

اس سے پہلے پہلی مرتبہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک ساتھ دو مرتبہ کہا تھا کہ ’’میں نے تجھے طلاق دی میں نے تجھے طلاق دی‘‘ کوئی سولہ یا سترہ سال پہلے ابھی بیٹی کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ تین دن کے اندر ہماری صلح ہوگئی اور انہوں نے رجوع کرلیا تھا۔

اس کے بعد چند سال پہلے پھر یہی الفاظ کہے کہ ’’میں نے تجھے طلاق دی‘‘ اس کے بعد ایک دفعہ یہ کہا کہ ’’میں نے تجھے فارغ کیا، میری طرف سے تو فارغ ہے‘‘ اس کے بعد پھر مفتیوں سے معلومات لیں تو پتہ چلا کہ دو طلاقیں ہو چکی ہیں۔ یہ بات کبیر احمد نے کافی لوگوں کو بتا دی تھی۔

اس کے بعد کبیراحمد کا رویہ اور جارحانہ ہو گیا اور پھر ایک مرتبہ انہوں نے کہا کہ جا تو سمجھ لے کہ ’’میں نے تجھے تیسری بھی دے دی‘‘ یہ بات انہوں نے دو مرتبہ کہی تھی۔ میرے بچے بچپن سے یہ لفظ طلاق سنتے آرہے تھے، افسوس اس بات کا ہے کہ کبیر احمد نے نواسہ نواسی کے سامنے بھی عزت نہ چھوڑی اور وہ وجوہات پیدا کردیں کہ میں نے غم اور غصے کی حالت میں خود اپنے لیے یہ سزا مانگ لیں اور انہوں نے کہہ دیا کہ ’’جا دے دی جا دے دی‘‘۔

یہ ساری باتیں میں نے اللہ کو حاضر ناظر جان کر لکھی ہیں مکمل لفظ بہ لفظ تفصیل نہیں لکھ سکی کیونکہ کہیں کچھ غلط لکھ کر اللہ کی پکڑ میں نہ آ جاؤں۔۔ فرحانہ۔03223641287

شوہر کا بیان:

محترم جناب مفتی صاحب

گزارش ہے کہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی ہے اور نہ ہی دونگا۔ گھر میں اتوار کو جھگڑا ہوا، میری بیوی نے مجھ سے طلاق طلب کی میں نے اس کی یہ خواہش پوری نہیں کی۔ دو طلاق میں نے اس کو دی تھیں، ایک طلاق میں نے اس کو 1993 میں دی تھی صرف تنبیہ کے طور پر، تاکہ گھر کے مسئلے ٹھیک ہوجائیں۔ وقت گزرتا رہا دوسری طلاق میں نے اس کو 2013 میں دی اور بتا دیا، اب صرف ایک باقی رہ گئی ہے۔ طلاق دینے کا مقصد صرف اور صرف تنبیہ کرنا تھا۔

تیسری طلاق میں نے نہیں دی اور نہ ہی دوں گا حالات چاہے جو بھی ہوں، یہ میرے ساتھ رہے یا نہ رہے، تیسری طلاق نہیں دوں گا۔ لڑائی سے جان چھڑانے کے لئے میں نے یہ لفظ استعمال کیا ہے ’’جا، میں نے تجھے چھوڑا‘‘بس۔ جو حالات مندرجہ بالا بیان کیے ہیں وہ ایک ہی نشست کے ہیں۔ جس وقت یہ کہا تھا اس وقت میری بیوی طلاق نہیں مانگ رہی تھی۔ میں نے جانا تھا مجھے جلدی تھی، جان چھڑانے کے لئے یہ کہا تھا۔ میں خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ لکھ رہا ہوں۔ مجھے دنیا کیا کہتی ہے کوئی فرق نہیں پڑتا، میں خدا کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں، نہ میں نے اس کو طلاق دی ہے اور نہ ہی دونگا۔ یہ خود سے چاہے خلع لینا چاہتی ہے تو لے لے مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ یہ بیان میں نے خدا کو حاضر وناظر جان کر لکھ دیا ہے، کوئی مانے یا نہ مانے فیصلہ آپ نے کرنا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں لہٰذا ب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ صلح کی کوئی گنجائش ہے۔

توجیہ:

بیوی کے بیان کے مطابق دو طلاقیں تو اس وقت واقع ہوگئیں تھیں جب شوہر نے سولہ یا سترہ سال پہلے دو دفعہ یہ کہا تھا کہ ’’میں نے تجھے طلاق دی، میں نے تجھے طلاق دی‘‘ اس کے بعد عدت کے اندر شوہر نے رجوع کر لیا تھا۔پھر اس کے چند سال بعد شوہر نے جب دوبارہ یہ جملہ بولا کہ ’’میں نے تجھے طلاق دی‘‘ تو اس سے تیسری طلاق بھی واقع ہوگئی۔

شوہر کے بیان کے مطابق پہلی طلاق 1993 میں دی۔ دوسری طلاق 2013 میں دی۔ اس کے بعد یکم مارچ ، 2020 کو لڑائی میں کہا کہ ’’جا میں نے تجھے چھوڑا‘‘تو اس سے تیسری طلاق بھی واقع ہوگئی کیونکہ یہ لفظ ہمارے عرف ومحاورہ میں طلاق کے لئے صریح ہے۔ لہٰذا تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں۔ نیز شوہر نے اپنی بات کا جو مطلب بیان کیا ہے وہ صورتِ حال سے مطابقت بھی نہیں رکھتا۔ اگر شوہر نے اپنی جان چھڑانی تھی تو یہ الفاظ کہتا: میری جان چھوڑ وغیرہ۔

در مختار مع رد المحتار(509/4) میں ہے:

[فروع] كرر لفظ الطلاق وقع الكل

قوله: (كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق

رد المحتار (519/4) میں ہے:

فإذا قال ” رهاكردم ” أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا وما ذاك إلا لأنه غلب

 في عرف الناس استعماله في الطلاق وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت.

فتاویٰ شامی (449/4) میں ہے:

والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل له تمكينه

بدائع الصنائع (295/3) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved