• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

بیوی کو کئی مرتبہ “تم میری طرف سے آزاد ہو”کہا پھر بیوی نے خلع لے لیا تو اب کیا حکم ہے؟

استفتاء

میری شادی کو 14 سال ہو گئے ہیں۔ہماری بہت لڑائی ہوتی تھی۔ شوہر خرچہ بھی نہیں دیتا تھا۔تنگ آکر میں نے عدالتی خلع کا کیس کیا۔وہ قطر میں ہوتا ہے۔ایک سال انتظار کیا لیکن وہ نہیں آیا۔ایک سال انتظار کرنے کے بعد  عدالت نے خلع کی ڈگری جاری کر دی۔دوران لڑائی کئی دفعہ مجھے کہہ چکا ہے کہ “تم میری طرف سے آزاد ہو” خلع کے بعد بھائی نے رابطہ کیا تو اس نے کہا  کہ” میری طرف سے یہ رشتہ ختم ہو چکا ہے” مجھے فتوی دیں کہ اس طرح طلاق ہو جاتی ہے؟

وضاحت مطلوب: (1) خلع لینے سے پہلے شوہر نے کب کب یہ الفاظ کہے تھے کہ “تم میری طرف سے آزاد ہو”واقعات کی تفصیل علیحدہ علیحدہ ذکر کریں۔(2) شوہر اور بھائی کا رابطہ نمبر ارسال کریں۔(3) آپ کے سوال کرنے کا مقصد کیا ہے؟ کیا آپ  آگے نکاح کرنا چاہتی ہیں یا کوئی اور وجہ ہے؟

جواب وضاحت:   (1) نکاح کے کچھ عرصہ بعد ہی جب بھی لڑائی ہوتی تھی تو یہ ہی الفاظ بولتے تھے کہ “جاؤ ،اپنی امی کے گھر میری طرف سے آزاد ہو”(2) شوہر کا رابطہ ********، بھائی کا رابطہ نمبر *******(3) میں آگے نکاح کرنا چاہتی ہوں۔

ہم نے کئی  مرتبہ شوہر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن رابطہ نہیں ہوسکا  اور بھائی   سے رابطہ کیا گیا تو اس  نے مذکورہ صورتحال کی تصدیق کی ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں  بیوی کے حق میں  ایک  بائنہ  طلاق واقع  ہو گئی ہے جس کی وجہ سے نکاح ختم ہوگیا ہے لہذا اگر عدت گذر چکی ہے تو فوراً ورنہ عدت کے بعد عورت آگے نکاح کرنا چاہے تو کرسکتی ہے نیز اگر میاں بیوی اکٹھے رہنا چاہیں تو دو گواہوں (دو مرد یا ایک مرد اور دو  عورتوں) کی موجودگی میں نیا مہر مقرر کرکے نکاح کرکے رہ سکتے ہیں۔

توجیہ: یہ الفاظ کہ”میری طرف سے تم آزاد ہو”کنایات طلاق کی تیسری قسم میں سے ہیں جن سے غصے کی حالت میں نیت کے بغیر بھی بیوی کے حق میں ایک  بائنہ  طلاق واقع ہو جاتی ہے۔مذکورہ  صورت میں چونکہ شوہر نے غصے اور جھگڑے کے دوران یہ الفاظ کہے ہیں اس لیے اگر شوہر کی ان الفاظ سے طلاق دینے کی نیت نہیں بھی تھی تب بھی بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق واقع ہو گئی ہے اور نکاح ختم ہوگیا ہے  اور متعدد دفعہ یہ الفاظ استعمال کرنےسے “لا يلحق البائن البائن”  کے اصول کے  تحت دوسری یا تیسری طلاق واقع نہیں ہوئی اور خلع سے بھی  چونکہ ایک بائنہ طلاق واقع ہوتی ہے اس لیے اگر خلع کو مؤثر بھی مان لیا جائے تو طلاق کی تعداد میں اضافہ نہ ہوگا۔

نوٹ: شوہر سے رابطہ نہ ہونے کی صورت میں محض بیوی کے بیان کے  مطابق یہ جواب دیا جارہا ہے اگر شوہر کا بیان اس کے برعکس ہوا تو یہ جواب کالعدم ہوگا۔

در مختار(521/4) میں ہے:

ونحو ‌اعتدي واستبرئي رحمك، أنت واحدة، أنت حرة، اختاري أمرك بيدك سرحتك، فارقتك لا يحتمل السب والرد ……………  (وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا.

وفى الشامية: (قوله توقف الأولان) أي ما يصلح ردا وجوابا وما يصلح سبا وجوابا ولا يتوقف ما يتعين للجواب. بيان ذلك أن حالة الغضب تصلح للرد والتبعيد والسب والشتم كما تصلح للطلاق، وألفاظ الأولين يحتملان ذلك أيضا فصار الحال في نفسه محتملا للطلاق وغيره، فإذا عنى به غيره فقد نوى ما يحتمله كلامه ولا يكذبه الظاهر فيصدق في القضاء، بخلاف ألفاظ الأخير: أي ما يتعين للجواب لأنها وإن احتملت الطلاق وغيره أيضا لكنها لما زال عنها احتمال الرد والتبعيد والسب والشتم اللذين احتملتهما حال الغضب تعينت الحال على إرادة الطلاق فترجح جانب الطلاق في كلامه ظاهرا، فلا يصدق في الصرف عن الظاهر، فلذا وقع بها قضاء بلا توقف على النية.

الدرالمختار مع ردالمحتار (4/531) میں ہے:

(‌لا) ‌يلحق ‌البائن (البائن)

(قوله ‌لا ‌يلحق ‌البائن البائن) المراد بالبائن الذي لا يلحق هو ما كان بلفظ الكناية لأنه هو الذي ليس ظاهرا في إنشاء الطلاق.

المحیط البرہانی (5/59) میں ہے:

قال علماؤنا رحمهم الله: ‌الخلع ‌طلاق ‌بائن ينتقص به من عدد الطلاق

امداد الاحکام (2/610) میں ہے:

 اور چوتھا جملہ یہ ہے کہ “وہ میری طرف سے آزاد ہے” اس کنایہ کا حکم درمختار میں صریح موجود ہے کہ غضب و مذاکرہ میں بدون نیت بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved