• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیوی کو ’’میں تمہیں طلاق دے دوں گا‘‘ کہنے کے بعد تین دفعہ ’’تم میری طرف سے فارغ ہو‘‘ کہنے کا حکم

استفتاء

شوہر کا بیان:

’’میں ملائیشیا میں ہوتا ہوں۔ میں نے اپنی بیوی کو اس کے بھائی کے سسرال جانے سے منع کیا تھا اور کہا تھا کہ ’’اگر تم وہاں گئی تو میں تمہیں طلاق دے دوں گا‘‘ پھر اس کے بھائی کے سسر کا انتقال ہوگیا، اس کا بھائی اس کے پاس آیا اور کہا کہ فوتگی پے چلو، تو بھائی کے کہنے پر چلی گئی، جب مجھے پتہ چلا تو مجھے غصہ آگیا میں نے اسے فون کیا کہ تم وہاں کیوں گئی ہو؟ اس نے کہا کہ میں بھائی کے سسرال آئی ہوئی ہوں، گھر جا کر بات کروں گی۔ وہ گھر گئی تو پھر ہمارا رابطہ ہوا، میں غصے میں تھا اور ہماری تلخ کلامی شروع ہوگئی، میں نے کہا کہ میں تمہیں فارغ کردوں گا، اس نے کہا کہ ٹھیک ہے اگر آپ فارغ کرنا چاہتے ہو تو کردو، میں نے کہا کہ ٹھیک ہے، میں تمہیں طلاق دے دوں گا لیکن میری بات سنو، اس کے بعد ہماری اور گفتگو ہوئی اور اس کے بعد میں نے بیوی سے کہہ دیا کہ ’’تم میری طرف سے فارغ ہو، تم میری طرف سے فارغ ہو، تم میری طرف سے فارغ ہو‘‘مجھے یہ یاد پڑتا ہے کہ یہ بھی میں نے دو دفعہ کہا تھا، تین دفعہ نہیں کہا تھا اور یہ بھی غصہ میں کہہ دیا تھا، میری نیت طلاق دینے کی نہیں تھی۔ اس کے بعد کسی سے مسئلہ پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ شوہر صدقہ وغیرہ کردے اور رجوع کرلے تو ٹھیک ہے، میں نے دو دیگیں پکوا کر تقسیم کروا دیں۔ اس صورت میں ہمارے نکاح کا کیا حکم ہے؟‘‘

نوٹ: بیوی سے دار الافتاء کے فون کے ذریعے رابطہ کیا گیا اور بیوی کو شوہر کا بیان پڑھ کرسنایا گیا تو اس نے شوہر کے بیان کی تصدیق کی۔(رابطہ کنندہ: صہیب ظفر)

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر واقعتاً شوہر نے وہی الفاظ استعمال کیے تھے جو سوال میں مذکور ہیں تو بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق واقع ہوچکی ہے، جس کا حکم یہ ہے کہ سابقہ نکاح ختم ہوچکا ہے، لہٰذا میاں بیوی اگر اکٹھے رہنا چاہیں تو گواہوں کی موجودگی میں نئے حق مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرکے رہ سکتے ہیں۔

توجیہ:مذکورہ صورت میں جب شوہر نے بیوی کو اس کے بھائی کے سسرال جانے سے منع کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر تم وہاں گئی تو میں تمہیں طلاق دے دوں گا‘‘ تو اس جملے سے شوہر نے بیوی کے وہاں جانے پر طلاق کو معلق نہیں کیا تھا بلکہ شوہر نے بیوی کو وہاں جانے کی صورت میں طلاق دینے کی دھمکی دی تھی اور طلاق کی دھمکی دینے سے طلاق واقع نہیں ہوتی لہٰذا بیوی کے اپنے بھائی کے سسرال جانے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ اسی طرح فون پر بات کے دوران شوہر نے جو یہ کہا کہ ’’میں تمہیں فارغ کردوں گا‘‘ یا ’’میں تمہیں طلاق دے دوں گا‘‘ تو چونکہ یہ بھی طلاق دینے کی دھمکی کے الفاظ ہیں اس لیے ان الفاظ سے بھی کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ اس کے بعد شوہر نے جب غصے میں یہ کہا کہ ’’تم میری طرف سے فارغ ہو‘‘ تو اس سے بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق واقع ہوگئی، کیونکہ یہ جملہ کنایاتِ طلاق کی تیسری قسم میں سے ہے جس سے غصے کی حالت میں شوہر کی طلاق کی نیت نہ بھی ہو پھر بھی بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ اور بائنہ طلاق کے بعد مزید بائنہ طلاق واقع نہیں ہوتی اس لیے شوہر کے دوسری یا تیسری مرتبہ یہی جملہ کہ ’’تم میری طرف سے فارغ ہو‘‘ کہنے سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

المحیط البرہانی (5/245) میں ہے:

”سئل نجم الدين النسفي رحمه الله عن زوجين وقعت بينهما مشاجرة. فقالت المرأة: با تو نمي باشم، مرا طلاق كن، فقال الزوج: طلاق مي كنم، طلاق مي كنم طلاق مي كنم؟ أجاب وقال: بأنها تطلق ثلاثاً؛ لأن قوله: طلاق مي كنم يتمحض للحال وهو تحقيق بخلاف قوله: كنم؛ لأنه يتمحض للاستقبال وهو وعد، وبالعربية قوله: أطلق، لا يكون طلاقاً لأنه دائر بين الحال والاستقبال فلم يكن تحقيقاً مع الشك ………. وهذا الاحتمال بالعربية، أما بالفارسية قوله: ميكنم للحال، وقوله: كنم للاستقبال.“

احسن الفتاویٰ (ج۵، ص۱۸۸) میں ہے:

’’سوال: کوئی شخص بیوی کو کہے ’’تو فارغ ہے‘‘ یہ کونسا کنایہ ہے؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔الخ

الجواب باسم ملہم الصواب: بندہ کا خیال بھی یہی ہے کہ عرف میں یہ لفظ صرف جواب ہی کے لیے مستعمل ہے اس لئے عند القرینہ  بلانیت بھی اس سے طلاق بائن واقع ہو جائے گی۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔‘‘

در مختار (4/531) میں ہے:

”(لا) يلحق البائن (البائن)“

نیز در مختار (5/42) میں ہے:

”وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالاجماع“

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

”فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق وزوال الملك أيضا حتى لا يحل له وطؤها إلا بنكاح جديد“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved