• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیوی کو ’’میری طرف سے تم آزاد ہو‘‘ کہا پھر کئی سال بعد یہی جملہ کہا تو کیا طلاق ہوگئی؟

استفتاء

زید اپنی بیوی آمنہ کو اکثر غصہ میں گالی گلوچ اور مار پیٹ کرتا ہے تقریبا 25 سال پہلے زید نے آمنہ کو یہ الفاظ کہے کہ "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں اور پھر اگلے  ہی دن اس سے میاں بیوی کا تعلق بنا لیا ،اس کے بعد آج سے تقریبا  اٹھارہ سال پہلے اس نے کسی بات پرغصہ  میں آکر یہ ایک دفعہ کہا کہ میری طرف سے تم آزاد ہو اور اپنے بیٹے سے کہا کہ اپنے نانا کے گھر چھوڑ  آؤ اس وقت رات کافی ہو چکی تھی اور نانا کا گھر دوسرے شہر میں تھا تو آمنہ نے کہا کہ صبح چھوڑ آنا اس کے بعد آمنہ نے خود اس لئے نہیں کہا کہ شوہر اس کو مارنا پیٹنا نہ شروع کر دے،زید نے خود بھی دوبارہ نہیں کہا اور آمنہ کے منع کرنے کے باوجود میاں بیوی کا رشتہ قائم کرلیا اس کے چند مہینے بعد آمنہ  اپنے بیٹے کے ساتھ والد کے گھر چلی گئی  اور شوہر کو بتایا کہ اب ہمارا تعلق قائم کرنا گناہ ہے تو زید نے زبردستی آمنہ کو بلوایا اور کہا کہ ہم دوبارہ نکاح کر لیں گےاور جب وہ بے عزتی کے ڈر سے واپس آگئی تو دوبارہ نکاح نہیں کیا ۔کیا مذکورہ صورت میں طلاق ہو گئی  تھی؟پھر دس یا گیارہ سال پہلے ایک اور موقع پر زید نے آمنہ کو  پہلے زد و کوب کیا اور پھر کہا میری طرف سے تم آزاد ہو ،جب آمنہ نے کہا کہ یہ آپ نے کیا کہہ دیا تو زید نے کہا میں نے کہا تھا کہ میری طرف سے تم آزاد ہو گئی ۔کیا ان صورتوں میں طلاق ہو گئی ؟مہربانی فرما کر جواب سے مطلع کریں۔

وضاحت مطلوب ہے:ان تینوں واقعات میں ہمیں شوہر کا مؤقف بھی درکار ہے،لہذا شوہر کا نمبر ارسال کریں۔

جواب وضاحت:شوہر کا رابطہ نمبر ارسال نہیں کر سکتی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں زید نے جب آمنہ کو یہ الفاظ کہے کہ "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں”تو اس سے ایک طلاق رجعی واقع ہو گئ،پھر چونکہ میا ں بیوی نے اگلے دن  ہی رجوع کر لیا تھا لہذ انکاح  برقرار رہا  پھر اس کے چند سال بعد جب زید نے غصہ میں آمنہ کو یہ جملہ کہا کہ”میری طرف سے تم آزاد ہو”یہ جملہ کنایات طلاق کی تیسری قسم میں سے ہے  جس سے غصہ کی حالت میں کہنے سے بیوی کے حق میں کہنے سے ایک طلاق بائنہ واقع ہو جاتی ہے اور نکاح ختم ہو جاتا ہے،چاہے شوہر نے طلاق کی نیت کی ہو یا نہ کی ہو۔لہذا مذکورہ صورت میں اس جملہ”میری طرف سے تم آزاد ہو”سے بیوی کے حق میں ایک طلاق بائن واقع ہو چکی تھی۔پھر اس کے تقریبا دس یا گیارہ سال بعد جب زید نے دوبارہ یہ جملہ کہا کہ”تم میری طرف سے آزاد ہو”تو اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ آمنہ کے حق میں ایک بائنہ واقع ہونے کی وجہ سے نکاح ختم ہو چکا تھا اور وہ طلاق کا محل نہیں  رہی تھی اس لئے یہ  جملہ لغو ہو گیا۔

نوٹ:مذکورہ  جواب بیوی کے بیان کے مطابق دیا گیا ہے،لہذا اگر صورتحال ایسے نہ ہوئی اور  شوہر کا بیان  بیوی کے بیان سے مختلف ہوا تو مذکورہ جواب کالعدم ہوگا۔

فتاوی عالمگیری(2/408)میں ہے:

واذا طلق الرجل امراته تطليقة رجعيةاو تطليقتين فله ان يراجعها في عدتها رضيت بذالك او لم ترض كذا في الهداية۔

درمختار(4/521)میں ہے:

ونحو اعتدي واستبرئي رحمك،انت واحدة،انت حرة،اختاري امرك بيدك سرحتك،فارقتك لا يحتمل السب والرد

امداد الاحکام(2/610)میں ہے:

اور چوتھا جملہ یہ ہے کہ”وہ میری طرف سے آزاد ہے”اس کنایہ  کا حکم در مختار میں صریح موجود ہے کہ غضب ومذاکرہ میں بدون نیت بھی طلاق بائن واقع ہو جاتی ہے۔

شامی (4/399)میں  ہے:

والحاصل ان الاول يتوقف علي النية في حالة الرضا والغضب والمذاكرة،والثاني في حالة والرضا والغضب فقط،ويقع في حالة المذاكرة بلا نية،والثالث يتوقف عليها في حالة الرضا فقط،ويقع في حالة الغضب والمذاكرة بلا نية۔

تنویر الابصار  وحاشیہ ابن عابدین(4/317)میں ہے:

(ومحله المنكوحة)

وفي الشامية تحته:اي ولو معتدة عن طلاق رجعي او بائن غير ثلاث في حرة وثنتين في امة

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved