- فتوی نمبر: 31-98
- تاریخ: 07 جولائی 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > طلاق کا بیان > صریح و کنایہ دونوں طرح کے الفاظ سے طلاق دینا
استفتاء
شوہر کا بیان:
میں دراصل دوسری شادی کرنا چاہتا تھا اس بات پر میرا بیوی سے لڑائی جھگڑا ہوا تھا ،میری بیوی اپنے گھر والوں کو رشتہ خراب کرنے کے لئے وہاں بھیجنا چاہتی تھی جہاں میں شادی کرنا چاہتا تھا، وہ مان نہیں رہی تھی، اس لیے میں نے غصے میں اپنی بیوی کو یہ جملہ کہ” میری طرف سے تم فارغ ہو” مختلف موقعوں پر لڑائی جھگڑے کے دوران کہا اور ہر مرتبہ اس جملے میں میری طلاق کی نیت نہیں تھی اس کے بعد میں نے ایک دفعہ غصے میں ا پنی بیوی کو ایک تحریری میسج بھی کیا کہ”میں تمہیں طلاق دیتا ہوں “اس میں بھی میری طلاق کی نیت نہیں تھی صرف ڈرانا مقصود تھا ،پھر اس واقعہ کے 15دن بعد میں نے طلاق نامہ اول بمع دستخط وانگوٹھا یونین کونسل میں جمع کروایا اور بعد میں طلاق نامہ اول کی منسوخی کی درخواست جمع کروائی، یہ تمام واقعات یعنی تم میری طرف سے فارغ ہو ،میسج پر طلاق اور طلاق نامہ وغیرہ ایک مہینے کے اندر اندر پیش آئے ہیں اب میں دوسرے شہر میں رہ رہا ہوں جہاں میں کام کرتا ہوں میرے والد صاحب نے کہا ہے میں پہلے مسئلہ پوچھوں گا اس کے بعد آپ نے گھر آنا ہے۔
طلاق نامہ اول کی عبارت:
من مظہر نے مسماۃ **** جو قبل ازیں میری بیوی تھی کو طلاق (نوٹس اول)دے کر اپنی زوجیت سے فی الحال علیحدہ کر دیا ہے مذکوریہ اب میرے نفس پر سرے دست حرام ہو چکی ہے۔
بیوی کا بیان :
میرے شوہر نے لڑائی جھگڑے اور غصے کے دوران مجھے مختلف موقعوں پر کئی مرتبہ یہ جملے کہے کہ” میری طرف سے تم فارغ ہو” اور اس کے بعد ایک میسج بھی کیا کہ” میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ” اسکے علاوہ کوئی طلاق نامہ مجھے نہیں ملا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں بیوی کی حق میں تینوں طلاقیں واقع ہو گئی ہیں جس کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہو چکی ہے ،اب نہ تو رجوع ہو سکتا ہے اور نہ ہی صلح کی گنجائش ہے۔
توجیہ:مذکورہ صورت میں شوہر کے حق میں تو ایک بائنہ طلاق ہی واقع ہوئی ہے اور وہ طلاقنامے سے واقع ہوئی ہے لیکن بیوی کے حق میں تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں کیونکہ طلاق کے معاملے میں بیوی قاضی کی طرح ہوتی ہے جس کی وجہ سے اگر وہ شوہر سے طلاق کے الفاظ خود سن لے تو وہ اس کے مطابق عمل کی پابند ہوتی ہے لہذا مذکورہ صورت میں جب شوہر نے پہلی مرتبہ یہ جملہ کہا کہ “میری طرف سے تم فارغ ہو”اس سے ایک بائنہ طلاق واقع ہو ئی کیونکہ یہ جملہ کنایات طلاق کی تیسری قسم میں سے ہے جس سے غصہ اور لڑائی کی حالت میں شوہر کی نیت کے بغیر بیوی کے حق میں طلاق واقع ہو جاتی ہے۔اور مذکورہ صورت میں چونکہ شوہر نے یہ الفاظ لڑائی جھگڑے اور غصے میں بولے تھے اس لیے اس سے بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق واقع ہو گئی اس کے بعد دوبارہ یہی الفاظ بولنے سے لایلحق البائن البائن کے تحت مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی اور پھر اس کے بعد جب شوہر نے طلاق کا میسج کیا تو چونکہ میسج کی تحریر کتابت مستبینہ غیر مرسومہ ہےاور طلاق کی کتابت مستبینہ غیر مرسومہ میں نیت یا دلالت(غصہ یا مذاکرہ طلاق وغیرہ )سے بیوی کے حق میں شوہر کی نیت کے بغیر بھی طلاق واقع ہو جاتی ہےاور مذکورہ صورت میں چونکہ شوہر نے یہ میسج لڑائی جھگڑے اور غصے میں بھیجا ہے اور میسج کے الفاظ چونکہ صریح ہیں اس لیے الصریح یلحق الصریح والبائن کے تحت دوسری طلاق بھی واقع ہو گئی ،پھر اس کے بعد عدت کے اندر ہی جب شوہر نے طلاق نامہ اول پر دستخط اور انگوٹھا لگایا تو اس سے تیسری طلاق بھی واقع ہو گئی ،جس کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہو چکی ہے ،اب نہ تو رجوع ہو سکتا ہے اور نہ ہی صلح کی گنجائش ہے۔
درمختار مع ردالمحتار(4/521) میں ہے:
(وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا
(قوله توقف الأولان) أي ما يصلح ردا وجوابا وما يصلح سبا وجوابا ولا يتوقف ما يتعين للجواب. …..لأنها (أي ما يتعين للجواب )وإن احتملت الطلاق وغيره أيضا لكنها لما زال عنها احتمال الرد والتبعيد والسب والشتم اللذين احتملتهما حال الغضب تعينت الحال على إرادة الطلاق فترجح جانب الطلاق في كلامه ظاهرا، فلا يصدق في الصرف عن الظاهر، فلذا وقع بها قضاء بلا توقف على النية كما في صريح الطلاق إذا نوى به الطلاق عن وثاق.
حاشیہ ابن عابدين (3/ 296)میں ہے:
(كنايته ) عند الفقهاء (ما لم يوضع له) أي الطلاق (واحتمله) وغيره (ف) الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب.
قال الشامى:(قوله قضاء) قيد به لأنه لا يقع ديانة بدون النية، ولو وجدت دلالة الحال فوقوعه بواحد من النية أو دلالة الحال إنما هو في القضاء فقط.
ردالمحتار(4/449)میں ہے:
والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه.
درالمحتار(5/80)میں ہے:
(الصريح يلحق الصريح و)يلحق (البائن) بشرط العدة. …….ولایلحق البائن البائن.
البحر الرائق(3/533)میں ہے:
وإذا لحق الصريح البائن كان بائنا لأن البينونة السابقة عليه تمنع الرجعة كما في الخلاصة.
بدائع الصنائع(3/295) میں ہے:
وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.
ہنديۃ (1/ 378)میں ہے:
الكتابة على نوعين مرسومة وغير مرسومة ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما يكتب إلى الغائب وغير موسومة أن لا يكون مصدرا ومعنونا وهو على وجهين مستبينة وغير مستبينة فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لا يمكن فهمه وقراءته ففي غير المستبينة لا يقع الطلاق وإن نوى وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق يقع وإلا فلا وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو.
فتاوی النوازل لابی اللیث السمرقندی(ص:215) میں ہے:
ثم الکتاب إذا كان مستبينا غير مرسوم كالكتابة علی الجدار و أوراق الأشجار وهو ليس بحجة من قدر علی التكلم فلا يقع الا بالنية أو الدلالة.
احسن الفتاوی(5/188)میں ہے:
سوال:کوئی شخص بیوی کو کہے (تو فارغ ہے)یہ کونسا کنایہ ہے؟۔۔۔
جواب :بندہ کا خیال یہی ہے کہ عرف میں یہ لفظ صرف جواب ہی کے لیے مستعمل ہے اس لیے عند القرینہ بلا نیت بھی اس سے طلاق بائن واقع ہو جائے گی۔
فقہ اسلامی(ص:125،126)میں ہے:
“تیسری قسم :وہ الفاظ جن میں مطالبہ مستر د کرنے کا یا گالم گلوچ کا معنی نہ نکلتا ہومثلا ۔۔آپ فارغ ہو”۔
“تیسری قسم میں حالت غضب اور مذاکرہ طلاق میں بلا نیت طلاق ہو جائے گی”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved