- فتوی نمبر: 5-217
- تاریخ: 15 نومبر 2012
- عنوانات: خاندانی معاملات > منتقل شدہ فی خاندانی معاملات
استفتاء
فدوی پہلے میٹھائی کے فرم میں کام کرتا تھا۔ اور ازاں فدوی کی شادی 2007- 04- 01 کو ہوئی۔ اس کے بعد فدوی کی فوج میں بطور سپاہی بھرتی ہوئی اور ٹرینیگ کے دوران فدوی بیمار ہوگیا۔ تقریبا چار ماہ سی ایم ایچ میں علاج کرواتا رہا۔ فدوی کا بلڈ پریشر بہت ہی زیادہ ہائی رہتا تھا۔ اور اسی سلسلے میں کافی ذہنی ڈاکٹروں سے علاج کروایا۔ فدوی کی بلڈ پریشر ہائی یعنی زیادہ رہنے کی وجہ سے نوکری سے نکال دیا گیا۔ تقریباً دو سال تک فدوی نے اپنا ذہنی علاج کروایا اور ذہنی اور نفسیاتی ڈاکٹر*** سے اپنا ذہنی علاج کروایا لیکن فدوی کا مہینے میں تین چار مرتبہ بلڈ پریشر بہت زیادہ ہائی ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے اسے کوئی سوج بھوج نہیں رہتی کہ وہ کیا کر رہا ہے؟ اور اس وقت فدوی بلڈ پریشر کی دوائی۔۔۔۔ گولی روزانہ استعمال کرتا ہے۔ اور اسی سلسلہ میں فدوی نے روحانی علاج بھی کرایا ہے۔ فدوی کے روحانی علاج کروانے کے بعد کافی حد تک ٹھیک بھی ہوگیا تھا۔ لیکن کبھی کبھار بلڈ پریشر ہائی رہتا تھا اور فدوی کے ذہن میں اپنی بیوی یعنی زوجہ محترمہ کے بارے میں غلط خیالات اور نفرت ابھرتی رہتی تھی جو کہ روحانی علاج سے پہلے بہت زیادہ تھی اور مہینے میں فدوی ہر تین یا چار دفعہ دورہ آتا تھا۔ لیکن طبیعت نارمل ہونے کے بعد فدوی ٹھیک ہوجاتا تھا۔ اس دفعہ فدوی عید پر جب گھر گیا تو فدوی کا بلڈ پریشر ہائی ہوگیا جو فدوی کو اپنی بیوی کے بارے میں مختلف غلط خیالات اور شک و شبہات کے بارے میں ابھارتا رہا لیکن ساتھ ساتھ فدوی نے اپنی روزانہ کی میڈیسن جاری رکھی۔ لیکن عید کے دوسرے دن بلڈ پریشر ہائی ہونے کی وجہ سے فدوی نے اپنی زوجہ محترمہ کو طلاق دے دی اور وہ بھی تین دفعہ طلاق کے الفاظ دہرائے۔ اس کے بعد فدوی تقریبا آدھے گھنٹے کے بعد نارمل حالت میں آیا۔ اور فدوی کو کافی پچتاوا ہوا لہذا فدوی کے دو چھوٹے چھوٹے بچے بھی ہیں۔ فدوی کی آپ سے التماس ہے کہ فدوی کا یہ مسئلہ شرعی طور پر حل کیا جائے۔
تنقیح: ۱۔ سائل سے عین طلاق دیتے وقت اور کوئی ایسی حرکت کا صدور ہوا ہے؟
۲۔ پہلے جب کبھی دورہ پڑتا ہے تو کیا حرکات ہوتی ہیں؟
جواب: ۱۔ میں اپنے والد کے سامنے کبھی اونچی آواز سے بولا نہیں۔ لیکن اس وقت میں اپنی بیوی کی طرف بڑھ رہا تھا وہ مجھے روک رہے تھے۔ میں نے ان سے بدتمیزی کی تھی، اسی طرح اپنے بھائی اور والدہ سے بھی بدتمیزی کی تھی۔ اس وقت مجھے کچھ ہوش نہیں تھا۔
۲۔ مجھے کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ کیا کر رہا ہوں۔ میرے دفتر کے عملے سے بھی آپ پوچھ سکتے ہیں کہ جب مجھے دورہ پڑتا ہے تو اس وقت میری کیا کیفیت ہوتی ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ سائل طلاق کے الفاظ بولتے وقت اس حالت میں تھا جس میں اسے اپنے افعال و اقوال کی ہوش نہیں تھی۔
فالذي ينبغي عليه التعويل في المدهوش و نحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله و أفعاله الخارجة عن عادته. و كذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته. فمادام في حال غلبة الخلل في الأقوال و الأفعال لا تعتبر اقواله و إن كان يعلمها و يريدها لأن هذه المعرفة و الإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن إدراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل. ( شامی: 4/ 439) فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved