- فتوی نمبر: 7-361
- تاریخ: 15 ستمبر 2015
- عنوانات: مالی معاملات > مضاربت
استفتاء
غلہ منڈی میں جب زمیندار اپنا مال لے کر آتا ہے تو عام طور پر اس کے سارے مال کا ڈھیر لگایا جاتا ہے۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ جگہ کم ہو اور آڑھتی کو زمیندار پر پورا اعتماد ہو تو صرف دو، چار بوریاں ہی کھول کر بولی لگ جاتی ہے اور باقی ویسے ہی وزن کر لی جاتیں ہیں۔
اور اگر کبھی ایسا ہو کہ آڑھتی نے ریٹ لگا دیا لیکن جب مال زمیندار کی بوری سے اپنی بوری میں منتقل کیا تو پتہ چلا کہ اندر مال گڑ بڑ ہے تو اس صورت میں آڑھتی ریٹ کم کر دیتا ہے۔ یعنی بولی میں طے ہونے والا ریٹ اب نہیں لگے گا بلکہ کم کر دیا جاتا ہے۔ اگر زمیندار کہے کہ میںکم ریٹ پر راضی نہیں ہوں تو اس کی مرضی ہے چاہے تو اپنا مال فروخت کرے یا اٹھا لے کرے۔
1۔ کیا زمیندار کے اعتماد پر اس کا مال دیکھے بغیر خریدنا جائز ہے ؟
2۔ اگر مال خراب نکل آئے تو کیا ریٹ کم کرنا شرعاً درست ہے ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں نمونہ دیکھ کر زمیندار کے اعتماد پر باقی بوریوں کا سودا کرنا درست ہے اور اگر باقی بوریوں میں مال نمونہ کے مطابق نہ ہو اور آڑھتی اور زمیندار باہمی رضا مندی سے ریٹ کم کر لیں تو یہ شرعاً درست ہے۔
(١) الدرالمختار (٤/٥٩٣) طبع شاملة
(صح الشراء والبیع لما لم یریاه والإ شارة إلیه) أي المبیع (أو إلی مکانه شرط الجواز) فلو لم یشر إلی ذلک لم یجز إجماعا. فتح وبحر.
(٢) شرح مجله رستم باز: ١٨١
إذا وجد المشتري بمشتریه عیباً و أراد الرد به فاصطلحا علی أن یدفع البائع دراهم إلی المشتري ولا یرد علیه المبیع جاز و یجعل حطاً من الثمن.
(٣) المعاییر الشرعیة: ٦/٢۔ صفحہ ١٩٠
إذا کان المصنوع وفت التسلیم غیر مطابق للمواصفات فإنه یحق للمستصنع أن یرفضه أو أن یقبله بحاله فیکون من قبیل حسن الاقتضاء. ویجوز للطرفین أن یتصالحا علی القبول ولو مع الحط من الثمن…………………………… والله تعالیٰ أعلم بالصواب
© Copyright 2024, All Rights Reserved